خراب معیشت، بائیڈن کی غلطیاں، جلد بازی یا کچھ اور؟ امریکی الیکشن میں کملا ہیرس کی شکست کی کیا وجہ بنی؟

07:477/11/2024, Perşembe
general.g7/11/2024, Perşembe
ویب ڈیسک
چھ نومبر کو کملا ہیرس نے الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کرلی
چھ نومبر کو کملا ہیرس نے الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کرلی

توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان کاٹنے کا مقابلہ ہوگا تو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ لیکن جیسے ہی 5 نومبر کو پولنگ بند ہوئی اور ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، یہ واضح ہو گیا کہ کملا ہیرس الیکشن ہار گئی ہیں اور امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب کیا۔

کملا ہیرس کی صدر بننے کی امیدیں اس وقت دم توڑ کر گئی تھیں جب بڑے خبر رساں اداروں نے ٹرمپ کو شمالی کیرولینا، جارجیا، پنسلوانیا اور وسکونسن جیسی اہم ریاستوں میں فاتح قرار دیا۔ جس کے بعد ٹرمپ نے الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل کر لی اور کملا ہیرس کی گیم اوور ہوگئی۔

چھ نومبر کو کملا ہیرس نے الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کرلی اور واشنگٹن ڈی سی میں اپنے حامیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اداس اور مایوس نہ ہوں اور لڑائی جاری رکھیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ’بہت سے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک تاریک وقت میں داخل ہو رہے ہیں، لیکن ہم سب کے فائدے کے لیے، مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہے۔‘


معیشت

کملا ہیرس کی شکست کی سب سے بڑی وجہ ملکی معیشت تھی۔ امریکی عوام سخت معاشی حالات سے مایوس ہیں اور انہیں بھروسہ نہیں تھا کہ کملا ہیرس بُری معیشت کو بہتر کر سکتی ہیں۔

کووڈ دور کے بعد امریکیوں کو اگلے دو سال تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، تقریباً ہر چیز مہنگی ہوگئی تھی۔

اس کے علاوہ انٹرسٹ ریٹ (شرح سود) کی بڑھتی قیمتوں نے کریڈٹ کارڈز، کار لون اور دیگر اخراجات مزید مہنگے ہوگئے تھے۔

حال ہی میں امریکی اکنامی کے اعداد و شمار میں مسلسل بہتری آئی ہے، لیکن یہ ووٹرز کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔ انتخابات سے پہلے اور بعد کے کئی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر ووٹروں کی معیشت کے بارے میں منفی رائے تھی۔ ایڈیسن ریسرچ کے ایک ایگزٹ پول نے انکشاف کیا ہے کہ دو تہائی ووٹرز کا خیال ہے کہ معیشت خراب ہے یا اتنی اچھی حالت میں نہیں ہے۔ اس کےعلاوہ جب ان سے ملک کے اہم مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا، تو 31 فیصد ووٹرز نے کہا کہ معیشت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

اور ٹرمپ نے عوام کے اس عدم اطمینان کا فائدہ اٹھایا۔ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بار بار کملا ہیرس پر گروسری اور گیس کی بڑھتی قیمتوں پر تنقید کی اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی یہ اسٹریٹجی کام کر گئی۔

رولنگ اسٹون نامی میگزین نے ایک تجزیے میں لکھا کہ امریکی عوام ضروری نہیں کہ ٹرمپ کے معاشی ایجنڈے کو ووٹ دیں۔ بلکہ وہ ڈیموکرپٹس کو ووٹ نہ دے کرملک کی موجودہ معیشت پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے تھے۔


بائیڈن کی صدارتی امیدوار سے دستبردار

ٹرمپ کے ہاتھوں کملا ہیرس کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے خلاف لوگوں کے غصے سے خود کو دور نہیں کرپائیں۔ بائیڈن عوام میں زیادہ مقبول نہیں تھے۔ پولز کے مطابق بائیڈن کی جانب سے ملکی معیشت اور امیگریشن سے نمٹنے سے متعلق حکمت عملی سے ووٹرز ناراض تھے۔

خارجہ پالیسی، خاص طور پر اسرائیل-غزہ جنگ، روس-یوکرین جنگ، اور ان تنازعات پر امریکی اخراجات کا استعمال بھی ایک مسئلہ تھا۔ چونکہ کملا ہیرس نے بائیڈن کی انتظامیہ میں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، اس لیے ووٹرز ان مسائل کی وجہ بائیڈن کے ساتھ کملا کو بھی سمجھتے تھے۔ بائیڈن کی پالیسیوں سے خود کو دور کرنے اور اپنا ایک واضح منصوبہ پیش کرنے میں کملا کی ناکام حکمت عملی کی وجہ سے وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔

کملا ہیریس نے بائیڈن کی اچھے اقدامات پر بھی کھل کر بات نہیں کرسکیں۔ انہوں نے بائیڈن پر تنقید کی اور نہ ہی اُن کی پالیسیوں پر سوال اٹھایا۔ جب مہنگائی اور امیگریشن پر عوام کے غصے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بائیڈن کی کوئی غلطی تسلیم نہیں کی۔ اس کے بجائے، انہوں نے دلیل دی کہ معیشت اچھی ہے۔

اب کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ کملا ہیرس کو بائیڈن سے الگ ہوجانا چاہیے تھا لیکن نائب صدر کے سابق کمیونیکیشن ڈائریکٹر جمال سیمنز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خود کو دور کرنے سے ریپبلکنز کواُن پر اٹیک کرنے کا ایک موقع مل جائے گا، اور اُن پر بے وفائی کا الزام لگائیں گے، آپ اس صدر سے دور نہیں بھاگ سکتے جنہوں نے آپ کو الیکشن لڑنے کا موقع دیا‘۔

کملا ہیرس نے بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو سیاہ فام، لاطینی اور نوجوان ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی امید ظاہر کی تھی۔ تاہم جب ووٹ ڈالنے کا وقت آیا، تو ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا۔

ایگزٹ پولز کے مطابق سفید فام لوگوں کی طرف سے ٹرمپ کو 55 فیصد کملا کو 43 فیصد، سیاہ فام کی جانب سے ٹرمپ کو 12 فیصد، کملا کو 86 فیصد، ہسپانوی/ لاطینی ووٹرز کی طرف سے ٹرمپ کو 45 فیصد اور کملا کو 53 فیصد، ایشین ووٹرز کی طرف سے ٹرمپ کو 38 فیصد اور کملا کو 56 فیصد ووٹرز ملے۔

یہی نہیں بلکہ کملا ہیرس 53 فیصد سفید فام خواتین ووٹروں سے محروم ہوئیں۔

جب بائیڈن صدارتی امیدوار سے دستبردار ہوئے تو اس کے فوراً بعد کملا ہیرس نے جولائی میں صدارتی دوڑ میں شامل ہوکر ہی الیکشن مہم شروع کی۔ ان کی مہم کا زیادہ تر حصہ اپنے حریف ٹرمپ پر حملہ کرنے پر مرکوز رہا۔


ٹرمپ پر ذاتی حملے

مہم کے آخر میں کملا ہیریس نے ٹرمپ پر تنقید مزید تیز کردی تھی۔ انہیں ’فاشسٹ‘ قرار دیا اور خبردار کیا کہ ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے انتخابات کو جمہوریت کی جنگ قرار دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کملا ہیریس یہ انتخاب اس وقت ہار گئی جب انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر حملہ کرنے پر توجہ مرکوز کردی۔ ووٹرز پہلے سے ہی ٹرمپ کے بارے میں سب کچھ جانتے تھے۔ ووٹرز ہیریس کے منصوبوں کے بارے میں سننا چاہتے تھے۔‘


نائب صدارتی امیدوار کا غلط انتخاب

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہیریس نے مینیسوٹا کے گورنر ٹم والز کو نائب صدارتی امیدوار کے طور منتخب کرنے میں غلطی کی۔ انہیں پنسلوانیا کے گورنر جوش شاپیرو کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔ ٹم والز کو ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو دیہی علاقوں کے سفید فام ووٹروں کو اپیل کر سکتے تھے لیکن شایپیرو اہم ریاست پنسلوانیا میں اچھے امیدوار ثابت ہوسکتے تھے۔ ووٹرز کو قائل کرنے میں ٹم والز کے مقابلےشایپیرو کے پاس زیادہ قابلیت تھی۔

اب ڈیموکریٹس یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا کملا ہیریس کو ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کھڑا کرنے کا آپشن ٹھیک تھا؟ یا نہیں جلد بازی سے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا؟


#کملا ہیرس
#ڈونلڈ ٹرمپ
#امریکا صدارتی الیکشن2024