ہماری روز مرہ کی ٹیکنالوجی کتنی سیف ہیں؟
’تصور کریں کہ آپ اپنے گھر یا کسی کافی شاپ میں سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں اور اچانک آپ کا موبائل پھٹ جاتا ہے اور آپ کے ہاتھ اور منہ جل جاتے ہیں اور پھر تصور کریں یہ ایسا ہی آپ کے ارد گرد لوگوں کے ساتھ بھی ہورہا ہو۔‘
یقینا یہ پڑھ کر آپ خوفزدہ ہوں گے اور ہونا بھی چاہیے۔ یہی سب کچھ لبنان میں ہورہا ہے۔
لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکی سمیت الیکٹرونک ڈیوائسز پھٹنے کے بعد گلوبل سپائی چین یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک سامان کی ترسیل کے دوران اس کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ماہرین یہ سوال بھی کررہے ہیں کہ لبنان میں ہونے والے حملوں نے ایسے خدشات کو جنم دیا ہے کہ مستقبل میں روزمرہ کے کمیونیکیشن ڈیوائسز کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان دھماکوں کے بعد لوگوں کا عام ٹیکنالوجی پر سے اعتماد اٹھ سکتا ہے۔
’لبنان حملوں نے ایسے خوفناک سوالات کو ختم دیا ہے جن پر پہلے کبھی غور نہیں کیا گیا‘
امریکہ کی سانتا کلارا یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی ایتھیکس کے ڈائریکٹر مبرائن پیٹرک گرین نے بھی بتایا کہ ’ہزاروں کی تعداد میں الیکٹرونک ڈیوائسز بموں میں تبدیل ہوگئے اور کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے دھماکہ خیز الیکٹرونک آلات کتنے زیادہ عام ہوگئے ہوں گے؟ پھٹنے والا مواد ان الیکٹرونکس یا سپلائی چین تک کیسے پہنچا؟ لبنان میں ہونے والے حملے نے ایسے خوفناک سوالات کو ختم دیا ہے جن پر پہلے کبھی غور نہیں کیا گیا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ماریروساریا تادیو نے بتایا کہ حملوں سے واقعی ہر جگہ خوف طاری ہوا ہے کیونکہ صرف ایک ڈیوائس کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ سپلائی چین بھی میں گڑبڑ کی گئی تاکہ بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا جاسکے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ماہرین ایسے حملوں کے امکان پرغور کرتے رہیں ہیں لیکن حکومتوں یا ریاستی حکام نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اگر ان حملوں سے کوئی فائدہ ہوا ہے، تو وہ یہ کہ لوگ اب اس بارے میں بات کررہے ہیں کہ سپلائی چینز اور ڈیجیٹل ڈیوائسز کو کیسے کنٹرول زیادہ محفوظ بنایا جاسکے۔
اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اسرائیل نے لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکیز سمیت دیگر الیکٹرونک آلات کو کس طرح کنٹرول کرکے انہیں دھماکے سے اڑایا لیکن لبنان اور امریکی حکام نے مختلف میڈیا آوٴٹ لیٹس کو بتایا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے ان ڈیوئسز کی پروڈکشن کے دوران ہی پھٹنے والا مواد نصب کیا تھا۔
تاہم اب تک اسرائیل کی جانب سے اس کی نہ تردید اور تصدیق۔
پیجرز دھماکوں میں تائیوان کی کمپنی گولڈ اپولو کے ملوث ہونے کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ پیجرز اسی کمپنی نے بنائے تھے لیکن کمپنی نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’بی اے سی‘ نامی کمپنی کے لائسنس کے تحت بنائے گئے تھے۔
نیویارک ٹائمز نے تین نامعلوم انٹیلی جنس اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بی اے سی اسرائیل کے لیے کام کرتا تھا جو دھماکہ خیز پیجر بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
دوسری جانب یہ رپورٹس گردش کررہی ہیں کہ واکی ٹاکی جاپانی کمپنی آئی کام کے تیار کردہ ہیں۔ تاہم آئی کام نے بیان دیا کہ کمپنی نے تقریباً دس سال پہلے اس کی تیاری بند کردی تھی۔
کیلیفورنیا پولی ٹیکنک اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایتھکس اور ایمرجنگ سائنسز گروپ کے ڈائریکٹر پیٹرک لن نے کہا کہ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سپلائی چین میں ڈیوائسز کے ساتھ کہاں چھیڑ چھاڑ کی گئی۔
کیا ہماری موبائل اور دیگر الیکڑونک ڈیوائسز بھی سیف ہیں؟
پیٹرک لن کہتے ہیں کہ جس طریقے سے ان ڈیوائسز کے ساتھ چھڑ چھاڑ کی گئی ہے ہوسکتا ہے کہ کچھ ممالک ٹیکنالوجیز امپورٹ کرنا بند کردیں اور خود تیار کرنے کی کوشش کریں اس سے اسمارٹ فونز، ڈرونز اور سوشل میڈیا ایپس جیسی چیزوں کے لیے سپلائی چین سیکیورٹی پر سخت ہوگی۔
آسٹریلیا میں یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سپلائی چین کے ماہر میلاد ہغانی کا خیال ہے کہ کمپنیاں اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لیں گی اور اپنے سیکیورٹی پروٹوکول کو بہتر بنائیں گی۔ شاید بہت سی کمپنیاں اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ چھوٹی کمپنیوں کے مقابلے ایپل، سام سنگ، ہواوے، شاوٴمی جیسی بڑی سمارٹ فون کمپنیوں میں سیکیورٹی کی خلاف ورزی یا ان کی پروڈکشن میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے امکانات بہت ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیکیورٹی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
کنگز کالج لندن کے وزٹنگ سینئر ریسرچ فیلو لوکاز اولیجنک نے کہا کہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ بڑی کمپنیوں کی پروڈکشن یا سپلائی چین میں بھی گڑبڑ ہوسکتی ہے لیکن ان کی پروڈکشن اور ڈیلیوری کا عمل چھوٹی کمپنیوں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ ابھی کے لیے ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ بڑی کمپنیاں اس طرح کے حملوں سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بڑی کمپنیاں اپنے کام کرنے کے طریقوں میں تبدیلی لائیں۔
کچھ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ بڑی ٹیک کمپنیاں ایسے حملوں اور خطرات سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ بڑی کمپنیاں اکثر چھوٹے سپلائرز پر انحصار کرتی ہیں، جنہیں نشانہ بنانا آسان ہو سکتا ہے۔
البتہ بڑی کمپنیوں نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو مینارڈ بتاتے ہیں کہ ان حملوں کے بعد لوگوں کا ٹیکنالوجی سے متعلق نظریہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ ٹیکنالوجیز کو مکمل طور پر سیف دیکھنے کے بجائے لوگوں کا یقین بڑھ جائے گا کہ ان کی ڈیوائسز پر قبضہ ہوسکتا ہے اور انہیں کسی بھی وقت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں کہا کہ یہ بھی توقع ہے کہ بڑی کمپنیاں اپنے صارفین کو یہ یقین دلانے کے لیے کوششیں کریں گی کہ ان کی پروڈکٹس سیف ہیں۔