پیجر کیا ہے اور اس کا استعمال کیسے ہوتا ہے؟

09:1218/09/2024, بدھ
general.g18/09/2024, بدھ
ویب ڈیسک
سترہ ستمبر کو سیکڑوں پیجرز میں ایک ساتھ دھماکے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں اب تک 9 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
سترہ ستمبر کو سیکڑوں پیجرز میں ایک ساتھ دھماکے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں اب تک 9 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

لبنان میں مسلح گروپ حزب اللہ کے استعمال ہونے والے پیجرز میں ایک ساتھ دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے دو فائٹرز سمیت 11 افراد ہلاک اور ایران کے سفیر سمیت دو ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔


پیجرز کیا ہے اور اس کا استعمال کیسے ہوتا ہے؟


پیجر ایک چھوٹی الیکٹرانک ڈیوائس ہے جسے بیپر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ رابطے یا پیغام بھیجنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔جو ٹیکسٹ میسج یا نمبر کی صورت میں بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ ڈیوائس 20 ویں صدی میں ایجاد ہوئی تھی اور 1990 سے 2000 کی دہائی میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا تھا لیکن موبائل فون عام ہونے کے بعد پیجرز کا استعمال کم ہونا شروع ہوگیا۔

اس ڈیوائس کے ذریعے آپ چھوٹے ٹیکسٹ میسج بھیج سکتے ہیں اور ریسیو کر سکتے ہیں۔ پیجر کے ذریعے جب میسج وصول ہوتا ہے توموبائل فون کی طرح ایک بیپ یا وائبریشن کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کوئی پیغام آیا ہے۔

یہ ڈیوائس ایک مخصوص فریکوئنسی پر کام کرتی ہے۔ اس کا استعمال زیادہ تر ایمرجنسی حالات، ڈاکٹرز، سیکیورٹی اداروں میں ہوتا ہے۔ اور ان جگہوں پر بھی ہوتا ہے جہاں موبائل سگنلز کام نہ کررہے ہوں۔

عام طور پر موبائل فونز کے مقابلے پیجرز کی بیٹری لمبی ہوتی ہے، اکثر ایک ہی چارج پر کئی دن چلتی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی لوگ آج بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے لوکیشن ٹریکنگ سے بچنے کے لیے حزب اللہ نئے پیجرز کا استعمال کررہے تھے۔


پیجر دھماکے کی ممکنہ وجہ کیا ہو سکتی ہے؟


اس حوالے سے کئی دعوے اور بہت سی تھیوریز سامنے آئی ہیں۔ یہ بھی افواہیں گردش کررہی ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل نے پیجرز کے ذریعے استعمال کیا جانے والا ریڈیو نیٹ ورک ہیک کرلیا ہو اور ایک ساتھ کئی دھماکے ہوئے ہوں۔

دوسری جانب حزب اللہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان حملوں کے پیچھے اسرائیل ہے اور حزب اللہ کے استعمال کردہ پیجرز میں لیتھیم بیٹریاں تھیں، جو ممکنہ طور پر دھماکوں کی وجہ بنیں۔

یاد رہے کہ لیتھیم بیٹریاں جب زیادہ گرم ہوجائیں تو اس میں آگ لگ سکتی ہے۔ یہ بیٹریاں عام طور پر سیل فون، لیپ ٹاپ، اور الیکٹرک گاڑیوں میں موجود ہوتی ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ان حملوں کی پلاننگ کئی مہینوں پہلے ہی کر رکھی تھی۔ جسے ’سپلائی چین اٹیک‘ کا نام دیا جارہا ہے۔ یعنی جہاں پیجرز کی پروڈکشن کے دوران اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور اس کی بیٹریوں میں خطرناک مواد رکھ دیا۔ جو کئی میل دور تک بھی کنٹرول ہوسکتا ہے اور پھر جب یہ پیجرز لبنان پہنچنے تو ایک ساتھ کئی دھماکے ہوئے۔


پیجر حملے غزہ میں کیوں نہیں ہوئے؟


لندن کے کنگز کالج میں ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے حمزہ عطار نے
کو بتایا کہ ’حملوں کا یہ طریقہ غزہ میں استعمال نہیں ہوسکتا کیونکہ حزب اللہ کے مقابلے حماس سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے بہت زیادہ معلومات رکھتا ہے‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ٹیلی کمیونیکیشن کی بات آتی ہے تو حماس اس میں بہت زیادہ قابل ہے وہ اپنی کمیونیکشن انتہائی خفیہ رکھتے ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’حماس موبائل فونز (جو بہت زیادہ عام ہے) استعمال نہیں کرتے۔ ان کا اپنا نیٹ ورک، انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن سسٹم ہے۔ وہ رابطے کے لیے اپنے زیر زمین یا خفیہ سسٹمز استعمال کرتے ہیں۔‘















#لبنان
#اسرائیل
#اسرائیل حماس جنگ
#حزب اللہ
#مشرقی وسطیٰ