جنوبی کوریا کی عدالت نے ملک میں مارشل لا لگانے کے بعد پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے ذریعے عہدے سے ہٹائے جانے والے سابق صدر یون سک یول کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو سیول ویسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹ نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ہیڈ کوارٹر کی درخواست پر سابق صدر کے وارنٹ گرفتاری کی منظوری دی۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ہیڈ کوارٹر اختیارات کے ناجائز استعمال پر سابق صدر کے خلاف تحقیقات کررہی ہے۔
ساوٴتھ کوریا میں ہی پہلی بار ہوا ہے کہ کسی صدر کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے ہوں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ حکام یون سک کو کب گرفتار کریں گے۔
صدر کی سیکیورٹی سروس نے عدالت کے فیصلے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ وہ وارنٹ کو قانونی طریقہ کار کے مطابق ہینڈل کریں گے۔
جنوبی کوریائی میڈیا کے مطابق یون سک یول کی جلد گرفتاری کا امکان نہیں ہے۔ اگر یون سک یول کو گرفتار کیا جاتا ہے، تو تفتیش کاروں کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے 48 گھنٹے ہوں گے کہ آیا مزید پوچھ گچھ کے لیے حراست میں رکھا جائے جس کے لیے وارنٹ کی درخواست کی جائے گی یا انہیں رہا کیا جائے۔
دوسری جانب سابق صدر کے وکیل کا کہنا ہے کہ یون سک یول کےگرفتاری کے وارنٹ غیرقانونی ہیں۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں 3 دسمبر کا مارشل لا بغاوت کے مترادف تھا یا نہیں اس کی تحقیقات چل رہی ہیں، صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے یون سک یول اپنے خلاف مقدمات سے محفوظ رہے تھے لیکن اب وہ بغاوت اور غداری جیسے سنگین الزامات سے استثنیٰ حاصل نہیں کرسکتے، ان الزامات کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
یاد رہے کہ یون سک یول 14 دسمبر کو صدر کے عہدے سے اُس وقت ہٹائے گئے جب انہوں نے ملک میں مارشل لگانے کا اعلان کیا تھا جو صرف چند گھنٹوں تک رہا اور اپوزیشن کے احتجاج اور شدید عوامی ردعمل کے بعد مارشل ناکام ہوگیا۔
ملک کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے یون سک یول کے خلاف ووٹنگ کی جو کامیاب رہی جس کے بعد وہ عہدے سے برطرف ہوگئے۔
یون سک یول کے بعد یان ڈک سو صدر بنے لیکن انہوں نے سابق صدر کے خلاف کارروائی کے لیے ججوں کی تقرری سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے اپوزیشن نے ان کے خلاف بھی پارلیمنٹ میں ووٹنگ کی جو کامیاب رہی۔
اب ملک کے وزیر خزانہ چوئی سانگ موک صدر کے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔