انڈیا کے تعمیری منصوبوں میں مبینہ کرپشن کا انکشاف کرنے والے مقامی صحافی مکیش چندراکر کی لاش ریاست چھتیس گڑھ میں ایک پانی کے ٹینک سے ملی ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قتل سے پہلے صحافی پر بدترین تشدد کا انکشاف ہوا ہے۔
32 سالہ مکیش چندراکر یکم جنوری کے دن لاپتہ ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے اہل خانہ نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی۔
تین جنوری کو مکیش چندراکر کی لاش بیجاپور ٹاؤن کے علاقے میں سڑک کی تعمیر کرنے والے ایک ٹھیکیدار کے کمپاؤنڈ میں اُس وقت ملی جب افسران نے صحافی کے موبائل فون کو ٹریک کیا۔
قتل کی تحقیقات کے بعد پولیس نے تین افراد کو گرفتار کرلیا ہے جن میں مقتول صحافی کے دو رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ مکیش چندراکر نے حال ہی میں اپنے کزن سریش چندراکر کی مبینہ کرپشن کے خلاف رپورٹنگ کی تھی جس میں 120 کروڑ روپے کے روڈ پروجیکٹ میں مبینہ بدعنوانی کا انکشاف کیا تھا۔ جس کے بعد حکومت نے ٹھیکیداروں کے خلاف تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ
رپورٹ کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ قتل کرنے کے دوران صحافی پر بدترین تشدد کیا گیا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوا کہ مقتول صحافی کے جگر کے چار ٹکڑے ہوگئے تھے، پانچ پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، سر میں 15 فریکچر کے نشان تھے، گردن ٹوٹی ہوئی تھی اور ان کا دل پھٹا ہوا تھا۔
پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کی 12 سال کی پریکٹس میں انہوں نے کبھی ایسا کیس نہیں دیکھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قتل میں دو سے زائد افراد ملوث ہونے کا امکان ہے۔
تحقیقات کا مطالبہ
پریس کونسل آف انڈیا نے مکیش چندراکر کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی اس واقعے پر پریشانی کا اظہار کیا اور تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ وشنو دیو سائی نے چندراکر کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ذمہ داروں کو ’سخت ترین سزا‘ دینے کا وعدہ کیا۔
کانگریس پارٹی کی لیڈر پرینکا گاندھی نے اس واقعہ پر اپنے صدمے کا اظہار کیا اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ذریعے چلائے جانے والے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں انڈیا گزشتہ سال 159 ویں نمبر پر تھا۔
انڈیا میں کرپشن یا ماحولیاتی مسائل کی تحقیقات کرنے والے صحافیوں پر حملے حیران کن بات نہیں ہے۔
مئی 2022 میں فری لانس جرنلسٹ سبھاش کمار مہتو نے کان کنی میں مبینہ کرپشن کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی، بعدازاں انہیں ان کے گھر کے باہر چار نامعلوم افراد نے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق انڈیا میں ہر سال اوسطاً تین سے چار صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہلاک کردیا جاتا ہے، جس سے یہ میڈیا کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔