امریکہ میں بندوقوں کی تعداد وہاں کی آبادی سے بھی زیادہ ہے اور ہر سال تقریباً 40 ہزار سے زیادہ لوگ فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کئی سالوں سے اسکولوں، گرجا گھروں، عبادت گاہوں، مالز اور تھیٹر جیسی جگہوں پر فائرنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والے لوگوں کے اہل خانہ اسلحہ خریدنے سے متعلق سخت قانون کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ملک میں بندوقوں کی خریدو فروخت میں کمی نہ آسکی۔ اس کے برعکس کچھ سیاستدان اپنی انتخابی مہم کے دوران کھلے عام اسلحے کی نمائش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے اسلحہ ساز کمپنیاں ان امیدواروں کو بھاری رقم بھی دیتی ہے۔
سب سے مشہور ہتھیار اے آر-15 سیمی آٹومیٹک رائفل ہے، اسی قسم کا ایک ہتھیار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں استعمال ہوا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکیوں کے پاس اتنی بندوقیں کیوں ہیں؟ اس حوالے سے بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ خانہ جنگی کے قریب ہیں۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے امریکہ میں ایک فلم بھی بنائی گئی جو رواں سال 12 اپریل کو ریلیز ہوئی تھی جس کا نام ’سول وار‘ تھا جسے ایلکس گارلینڈ نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ ، یہ فلم 6 جنوری 2021 کے واقعے سے متاثر ہے جب اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی کانگریس کی عمارت پر حملہ کیا اور 2020 کے انتخابات میں ان کی شکست کو چیلنج کیا تھا۔
فلم کے اسکرپٹ کی بات کریں تو فلم کی کہانی ایسے موڑ پر شروع ہوتی ہے جب خانہ جنگی پہلے ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے لیکن اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خانہ جنگی کیوں، کیسے یا کس نے شروع کی۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اگرچہ یہ فلم صدارتی انتخابات سے پہلے ریلیز ہوئی ہے لیکن اس کا حقیقت میں امریکی سیاست سے تعلق نہیں ہے۔ تاہم فلم میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کس طرح خانہ جنگی عام امریکیوں کو قاتل بنا رہی ہے۔ یہ فلم ایک ’وارننگ‘ ہے کہ کس طرح خانہ جنگی امریکی معاشرے کو بڑے پیمانے پر متاثر کرسکتی ہے۔
78 سالہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر اے آر- 15 ہتھیار سے حملہ کرنے والے 20 سالہ شوٹر کے پیچھے محرکات واضح نہیں ہوسکے لیکن اس واقعے نے فلم ’سول وار‘ میں پیش کیے گئے پرتشدد اور ڈرامائی مناظر یاد دلائے۔
ایک جانب جہاں اس وقت امریکہ میں انتہائی پولرائزڈ سیاسی ماحول ہے وہاں اس دوران بندوقوں کی خرید و فروخت میں اضافے سے مستقبل میں انتشار برپا ہوسکتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ زیادہ تر ریپبلکن ووٹرز اسلحے خریدنے کے شوقین ہیں، 2019 میں ایک سابق ریپبلکن نمائندے نے تبصرہ کیا تھا کہ ’لوگ ایک اور خانہ جنگی کے بارے میں باتیں کررہے ہیں۔ ایک گروپ کے پاس تقریباً 8 ٹریلین بندوقیں ہیں۔ حیرت ہے کہ کون جیتے گا؟‘۔
ریپبلکن پارٹی کے حامی تھامس کلینگسٹائن نے امریکہ میں سیاسی تقسیم کو ’سرد خانہ جنگی‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ’سرد خانہ جنگی‘ ان لوگوں کے درمیان ہے جو امریکہ کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں اور ملک کا دفاع کرتے ہیں اور وہ لوگ جو امریکہ کو برا سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ریپبلکنز کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے کام کریں جیسے وہ جنگ میں ہوں، انہیں ایسے لڑنا چاہیے جیسے وہ ’آزادی‘ اور ’موت‘ کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کررہے ہوں۔ ریپبلکنز پارٹی کے انتہائی بائیں بازو کے لوگ تھامس کلینگسٹائن کے موٴقف پر چلنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی وفاقی حکومت اور بیوروکریسی کئی دہائیوں سے قبضے میں ہے اور اگر ٹرمپ دوسری بار صدر بن جاتے ہیں تو انہیں ملک کے موجودہ نظام کو مکمل طور پر ختم اور تبدیل کردینا چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ امریکہ میں دو بڑی جماعتوں کے انتہائی پولرائزڈ ووٹرز ایک دوسرے کو بڑے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک پرشین فوجی تھیوریسٹ کارل وون کلاز وٹز نے اپنی کتاب ’آن وار‘ (On War) میں کہا کہ ’جب دوسرے طریقے کام نہ کررہے ہوں تو جنگ ہی سیاسی اہداف حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے‘۔ امریکہ میں اس وقت جس قدر سیاسی تنازعات بڑھ چکے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہاں کی سیاست جنگ جیسی صورتحال بن گئی ہے۔
دنیا بھر میں امریکہ ہی واحد ملک ہے جو اپنی فوج پر سب سے زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے، ملک کا 2025 کا دفاعی بجٹ تقریباً 85 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ تقریباً 80 ممالک میں امریکہ کے کم از کم 750 فوجی اڈے اور ایک لاکھ 70 ہزار فوجی تعینات ہیں۔ اس کے باوجود امریکی حکومت اندرونی طور پر شدید پولرائزڈ ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ اس سیاسی تقسیم کی ایک مثال ہے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔