گیارہ ستمبر 2001 امریکی تاریخ کا وہ تاریک دن ہے جس نے پوری دنیا کا نقشہ پلٹ دیا تھا۔ آج اس واقعے کو 23 برس گزر چکے ہیں لیکن حملے کے ماسٹر مائنڈ کو اب تک سزا نہیں ملی۔
تین گھنٹوں کے اندر نیویارک کی بلند ترین عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور امریکی فوج کا مرکز پینٹاگون کی عمارت سے آگ کے شعلے دکھائی دینے لگے۔ ہزاروں شہریوں کی ہلاکت ہوئی جس کے بعد پورا ملک صدمے میں چلا گیا کہ یہ کارروائی امریکا جیسے شہر میں آخر ہوئی کیسے؟
اس حملے میں ٹوٹل 19 حملہ آوروں نے 4 امریکی ایئرلائنز کو ہائی جیک کرلیا تھا۔ پہلا طیارہ فلائٹ نمبر 11 میں 92 مسافر سوار تھے جبکہ دوسرا طیارہ فلائیٹ نمبر 175 میں 65 مسافر فراد تھے اور تیسرا طیارہ فلائٹ نمبر 77 میں 64 مسافر سوار تھے۔ تینوں میں پانچ، پانچ ہائی جیکرز تھے۔
جبکہ چوتھا طیارہ فلائٹ نمبر 93 میں 44 مسافر سوار تھے جس میں 4 ہائی جیکرز تھے۔
ہر طیارے میں موجود حملہ آوروں میں ایک شخص ایسا تھا جسے طیارہ اڑانے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔
11 ستمبر 2001 کی صبح سویرے 19 ہائی جیکرز بوسٹن، نیوارک اور واشنگٹن ڈی سی کے ایئرپورٹس سے سیکیورٹی سے ہوتے ہوئے گزرے۔
برطانوی اور امریکی نشریاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق حملوں کی پلاننگ شدت پسند تنظیم القاعدہ نے افغانستان میں کی تھی جس کے سربراہ اسامہ بن لادن تھے۔ ٹوٹل 19 حملہ آور تھے۔ تین ٹیموں میں پانچ پانچ افراد جبکہ ایک میں چار افراد تھے۔ ہر گروپ میں ایک ایسا شخص تھا جس نے پائلٹ کی ٹریننگ لی ہوئی تھی۔
15 ہائی جیکرز کا تعلق سعودی عرب
2 کا تعلق متحدہ عرب امارات
ایک کا لبنان اور ایک کا مصر سے تھا
نہیں۔ حملے کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے خالد شیخ محمد سمیت پانچ ملزمان برسوں سے کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے گوانتاناموبے میں بغیر کسی مقدمے کے قید ہیں۔ نائن الیون کیس میں تھری ٹرائل کا مرحلہ بھی پچھلے دس سالوں سے جاری ہے مگر اب تک مقدمے کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوسکا۔
اس التوا کو ختم کرنے کی کوشش میں رواں سال 31 جولائی کو امریکی وزارت دفاع پینٹاگون نے کہا تھا کہ خالد شیخ محمد اور دیگر دو ملزمان نائن الیون حملوں کا اعتراف جرم کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس کے بدلے انہیں سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
لیکن چند روز بعد ہی امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ملزمان اور پینٹاگون کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کو منسوخ کردیا۔لائیڈ آسٹن نے ٹرائل شروع کرنے کے عمل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ متاثرین کے اہل خانہ اور امریکی عوام کا حق ہے کہ وہ نائن الیون کے ملزمان کا فوجی ٹرائل چلتے دیکھیں
قانونی ماہرین کے مطابق نائن الیون کا مقدمہ کب شروع ہوگا یہ غیر یقینی ہے۔
یاد رہے کہ نائن الیون حملوں کے بعد اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے دہشت گرد گروپس سے تعلق رکھنے والے یا دہشتگرد حملوں میں ملوث ملزمان کو گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان ملزمان سے ایسی معلومات نکلوائی جاسکیں جس سے القاعدہ کے نیٹ ورک کو روکنے میں مدد ملے۔