مڈل ایسٹ بحران: کیا ہم ریاستی دہشت گردی کے دور سے گزر رہے ہیں؟

08:4025/09/2024, بدھ
جنرل1/11/2024, جمعہ
سلیمان سیفی اوئن

ریاستوں کی تاریخ میں بغاوتوں کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ سینٹر پیریفری تھیوری کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ریاست کی اصل طاقت منظم طورپر قائم مرکزی حکومت یعنی پیریفری ہوتی ہے۔ اس مرکز سے جو بھی کچھ جتنا زیادہ دُور ہے اُس کی اہمیت اُتنی ہی کم ہے۔ مثال کے طور پر سلطنت عثمانیہ میں جو علاقے اور افراد مرکز سے دور تھے وہ سیاسی طور پر کم طاقتور تھے۔ مرکزی حکومت ان علاقوں سے وسائل جمع کرتی تھی جو زیادہ تر ٹیکس کی صورت میں ہوتے تھے۔ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھنے کی صورت میں بغاوت کا خطرہ پیدا ہوجاتا جس سے مرکزی حکومت

خبروں کی فہرست

ریاستوں کی تاریخ میں بغاوتوں کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ سینٹر پیریفری تھیوری کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ریاست کی اصل طاقت منظم طورپر قائم مرکزی حکومت یعنی پیریفری ہوتی ہے۔ اس مرکز سے جو بھی کچھ جتنا زیادہ دُور ہے اُس کی اہمیت اُتنی ہی کم ہے۔ مثال کے طور پر سلطنت عثمانیہ میں جو علاقے اور افراد مرکز سے دور تھے وہ سیاسی طور پر کم طاقتور تھے۔ مرکزی حکومت ان علاقوں سے وسائل جمع کرتی تھی جو زیادہ تر ٹیکس کی صورت میں ہوتے تھے۔ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھنے کی صورت میں بغاوت کا خطرہ پیدا ہوجاتا جس سے مرکزی حکومت کا نظام متاثر ہوسکتا تھا۔

ریاستیں فوج بناتی ہیں ان فوجوں کا کام یا تو اپنی سرزمین کو بڑھانا یا جنگوں میں لڑ کر اپنی زمین کی حفاظت کرنا ہے۔ ان جنگوں کی خصوصیات، قواعد اور طریقے ایک سے ہوتے ہیں۔ جنگوں کا سب سے عام طریقہ یہ کہ جب فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتی ہیں۔ دو افواج میدان جنگ میں ایک دوسرے کا سامنا کرتی ہیں، فاتح کو وہ مل جاتا ہے جو وہ چاہتا ہے جبکہ لڑائی میں کمزور ثابت ہونے والا ہار کر نقصان اٹھاتا ہے۔۔ان جنگوں کی منطق قابل فہم ہے۔

ریاستی افواج کی ایک اور ذمہ داری اندرونی بغاوتوں سے نمٹنا بھی ہے۔ اگر ایک باغی تنظیم خود کو سامنے لاتی ہے تو فوج کے لیے کارروائی مشکل نہیں ہوتی ہے۔ باغیوں کے پاس اکثر فوج جیسی طاقت اور وسائل نہیں ہوتے جس کے نتیجے میں ان کے کچلے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس طاقت کے فرق سے نمٹنے کے لئے وہ اپنے طریقے بدلتے رہتے ہیں۔ سامنے سے حملہ کرنے کے بجائے وہ چھپے رہتے ہیں، جال بچھاتے ہیں اور غیر متوقع جگہوں سے اچانک حملے کرتے ہیں، جس سے فوج کے لیے انہیں شکست دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ افواج کے سامنے کوئی منظم دشمن نہیں ہوتا۔ تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا کہ عظیم افواج نے بظاہر کمزور باغیوں کے ہاتھوں زبردست نقصان اٹھائے یا شکست کا بھی سامنا کیا۔

(’منظم دشمن‘ سے مراد ایک مخالف قوت ہے جن کا کوئی واضح مقصد ہو یا مربوط طریقے سے کام کرتی ہو۔)

اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ریاستیں آمنے سامنے ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی ہیں، جبکہ باغی پیچھےسے حملہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یوں تو ریاستیں منظم حملوں کا طریقہ اختیارکرتی ہیں لیکن دیگر طریقوں سے بھی اپنے حریف ریاستوں کو کمزور کرنے اور ان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ لہٰذا وہ حریف ملکوں میں اُٹھنے والی بغاوتوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لئے اُن باغی تحریکوں کو مدد فراہم کرسکتی ہیں۔ اس حوالے سے ریاستوں کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں اور ریاستیں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بھی ایسی کارروائیاں کرتی ہیں۔ جب ایسے طریقے عام ہوجائیں تو سیاست میں اخلاقی خرابیاں معمول کی بات بن جاتی ہیں۔

یہ تاثر دیہی علاقوں میں اُٹھنے والی باغی تحریکوں کے لئے زیادہ مناسب ہے جہاں سرحد سے نزدیک ہونے کی وجہ سے ریاستیں اپنا کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ غلاموں یا تاجروں کی بغاوتیں خونزیز ہونے کے باوجود بھی بآسانی دبانا ممکن ہوتا ہے۔ شہری بغاوتوں کی کامیابی کا بہت زیادہ دارومدار اس پر ہوتا ہے کہ کیا حکومت میں شامل با اثر لوگ ریاستی سطح پر ان کی حمایت کرتے ہیں یا اپنے ذاتی مفاد کے لئے ان تحریکوں کو ہوا دیتے ہیں۔ اس سے غیر معمولی صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے ۔ جس کے بعد ’امید ہے کہ ریاست کے بہترین مفاد میں ہوگا‘ جیسے بیانات سامنے آتے ہیں۔

ماڈرن ریاستوں کے پاس اہم ساز و سامان اور صلاحیت ہونے کی وجہ سے قدیم ریاستوں سے مختلف ہیں، نئے دور میں منظم افواج یعنی کسی ملک کے فوجی ادارے اور غیر منظم افواج یعنی گوریلا فائٹرز، ملیشیا یا باغی گروپس کے درمیان فرق کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب حکومتیں اپنے ملک کے اندر بغاوت یا دوسرے ممالک کے ساتھ تنازعات کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہیں، تو وہ اکثر غیر روایتی طریقوں کا سہارا لیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایسے طریقوں کا استعمال معمول بن جاتا ہے۔ جاسوسی ایجنسیاں اور باغی گروپس، خواہ وہ تحفظ کے لیے ہوں یا حملہ کرنے کے لیے، حکومتوں کے کام کرنے کے طریقہ کار کا ایک باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں اور اب ریاستی نظام میں انہیں معمول کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایسی افواج جو روایتی جنگی طریقوں کا استعمال کرتے ہیں، وہ خصوصی ٹیمیں اور یونٹ بناتے ہیں جنہیں غیر روایتی یا گوریلا جنگ سے نمٹنے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ اس سے وہ مختلف قسم کے تنازعات اور چیلنجز کے مطابق ڈھل سکتے ہیں۔

یہ سب سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہاں ریاستوں کے اپنے مفادات اور دشمنیاں ہوتی ہیں، تاہم ایسے طریقے ہمیشہ استعمال نہیں ہوسکتے، کچھ قوانین اور قوائد ہوتے ہیں جو ان تاریک یا ناگزیر سسٹم کو کسی حد تک منظم کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سی آئی اے امریکی قانون کے ذریعے قائم کی گئی تھی اور کے جی بی سویت یونین میں بنائی گئی۔ یہ ایجنسیاں ملک کے اندر باغی گروپس کے خلاف لڑتی ہیں اور بیرون ملک کی غیر رسمی طاقتوں کی پست پناہی اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور انہیں قانونی حیثیت دینے کے لیے اکثر ان پر ’قومی ہیرو‘، ’لبریشن فائٹرز‘ یا ’فریڈم آرمی‘ جیسے ناموں کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ایسے کام خفیہ طور پر کیے جاتے ہیں اور جب سوال کیا جائے تو ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

سرد جنگ کے دوران ریاستوں میں براہ راست جنگ نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ علاقائی تنازعات کی حمایت کرکے اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔ سرد جنگ کے بعد یہ توازن بدل گیا۔ متنازع علاقوں پر قبضوں کے قانونی جواز کے ساتھ مغرب نے براہ راست قومی ریاستوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ دہشت گردی کے تصور کا بے تحاشا اور غیرمحتاط استعمال شروع ہوگیا۔ اب یہ حال ہے کہ جن ریاستوں اور اقوام پر دہشت گردی کاالزام لگتا ہے انہیں مغرب کے لیے خطرہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

یہاں دہشت گردی کے تصور کا استعمال شروع ہوگیا جس کی واضح تعریف تو نہیں ہے لیکن اسے ہر جگہ پر لاگو جاتا ہے۔ اب وہ ممالک اور قومیں جن پر دہشت گردی کا الزام ہے اور مغربی اقدار کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے وہ بھی اس زمرے میں شامل ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، اور دیگر اس تبدیلی کے نتیجے میں سب سے پہلے متاثر ہوئے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی، کیونکہ غیر رسمی طاقتیں (گوریلا فائٹرز وغیرہ) اور ملکوں کی افواج کے درمیان فرق کم واضح ہو گیا۔ ایسا کرنے والے یہ نہیں سمجھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ تبدیلی ریاستوں کو خود دہشت گردی پیدا کرنے والے اداروں میں تبدیل کردے گی۔ وقت نے ثابت کیا کہ ایسا ہی ہوا۔ ہم اس وقت حقیقی معنوں میں ریاستی دہشت گردی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات اس کی مثال ہیں۔ حال ہی میں لبنان میں پیجر دھماکوں کے ذریعے قتل عام اس کی واضح مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

#لبنان
#حزب اللہ
#حماس اسرائیل جنگ
#مشرقی وسطیٰ