رواں سال ملک میں آٹھ پولیو وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں پولیو وائرس کے مزید 2 کیسز سامنے آئے ہیں جس کے بعد رواں سال جنوری سے اب تک کیسز کی مجموعی تعداد 8 ہوگئی ہے۔
پاکستان میں پولیو وائرس کے رواں ہفتے 3 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں پولیو کے خاتمے کے لیے ریجنل ریفرنس لیبارٹری کے مطابق پاکستان میں دو نئے کیسز بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ اور سندھ کے ضلع کیماڑی سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
رواں سال کراچی میں پولیو وائرس کا یہ پہلا اور قلعہ عبداللہ میں تیسرا کیس رپورٹ ہوا۔ اس سال 8 میں سے 6 کیسز بلوچستان سے سامنے آئے ہیں۔
حکام کے مطابق پولیو پروگرام یکم سے 7 جولائی تک ملک بھر کے 41 اضلاع میں 95 لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلانے کے لیے مہم کا آغاز کرے گا۔
حکام نے کہا ہے کہ ’والدین، مذہبی رہنما، اساتذہ، کمیونٹی کے بزرگوں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اس خوفناک بیماری سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے آس پاس کے پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو متعدد بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں۔‘
پولیو کیا ہے؟
پولیواعصابی نظام پر حملہ کر سکتا ہے جس کی وجہ سے صرف چند گھنٹوں میں انسان کا پورا جسم مفلوج ہو سکتا ہے۔
پولیو ایک ایسی لا علاج بیماری ہے جس سے بچہ پوری زندگی کے لیے معذور ہو سکتا ہے۔
لیکن پولیو سے بچاؤ کے قطرے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پلوا کر اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
وائلڈ پولیووائرس تین قسم کا ہوتا ہے، دوسری اور تیسری قسم کو دنیا سے ختم کیا جاچکا ہے جبکہ پہلی قسم کا خاتمہ ابھی باقی ہے اور یہی وہ قسم ہے جو پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔
وائلڈ پولیو وائرس انتہائی متعدی بیماری ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں انوائرمنٹ ٹیسٹنگ کے ذریعے پانی اور گٹر کے سیمپل لیے جاتے ہیں جس سے پولیو وائرس کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔
پاکستان میں 2021 کے آخر میں صوبہ خیرپختونخوا کے کچھ اضلاع میں وائلڈ پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔
پاکستان میں پولیو وائرس کتنا سنگین مسئلہ ہے؟
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو اب بھی وبائی مرض ہے۔
پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستان میں 1994 میں ویکسینیشن پروگرام شروع کیا گیا تھا، حکام نے کہا تھا کہ اُس وقت ملک میں سالانہ 20 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے تھے۔
پاکستان کو پولیو ویکسین کی سالانہ 3 کروڑ خوراکیں دینے اور اربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود یہ بیماری اب بھی پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی ہے اور 2015 سے اب تک پاکستان میں پولیو کے 357 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں پولیو مہم کو مزاحمت کا سامنا کب کرنا پڑا؟
پاکستان میں پولیو مہم کو مزاحمت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 2011 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لیے ایک جعلی ہیپاٹائٹس ویکسینیشن مہم شروع کی تھی۔
اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں 2011 میں رات گئے ایک آپریشن میں ہلاک کیا گیا۔ اُس وقت امریکی ہیلی کاپٹرز ایبٹ آباد کی فضاؤں میں داخل ہوئے اور اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں گھس کر وہیں ان کو ہلاک کیا تھا۔
امریکہ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے کے لیے پاکستان میں جعلی ویکسین کا سہارا لیا اور اس مقصد کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھاری رقم کے بدلے استعمال کیا
جعلی ویکسین کا مقصد اس کمپاؤنڈ میں رہنے والوں بچوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کرنا تھا تاکہ ان کو اسامہ بن لادن کی بہنوں کے ڈی این اے کے ساتھ میچ کیا جا سکے جو امریکہ کے شہر بوسٹن میں انتقال کر گئیں تھی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی پاکستان کے قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھتے تھے اور اس وقت پاکستانی جیل میں 33 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
انہوں نے مقامی انتظامیہ کواطلاع کیے بغیر محکمہ صحت کے مقامی عملے کو رقم دی اور جعلی پولیو اور ہیپاٹائٹس مہم چلائی۔
اس پورے واقعے کے بعد لوگوں کا پولیو مہم سے اعتبار اٹھ گیا۔
2012 میں پاکستانی طالبان نے پولیو ویکسین کے حوالے سے ایک فتویٰ بھی جاری کیا تھا کہ یہ ویکسین ایک مغربی پروپیگینڈا ہے۔
اس دوران مذہبی عقائد سے متعلق غلط معلومات بھی پھیلائی گئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ویکسین میں سور کا گوشت اور الکحل ہے، جن کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔
پولیو مہم کے دوران ورکرز پر حملے
پاکستان میں آج بھی پولیو مہم سے متعلق غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں اور ٹیم کو ہراسانی اور حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
مختلف واقعات میں اس سال کم از کم 102 پولیو فیلڈ ورکرز، اہلکار اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اس سال چلائی جانے والی مہم کے دوران چھ ہیلتھ ورکرز اور سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستانی طالبان نے درجنوں ہیلتھ ورکرز اور پولیو مہم میں شامل سیکیورٹی فورسز کے ارکان کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن حکام کا یہ خیال ہے کہ ان حملوں کی وجہ صرف پولیو پروگرام ہی نہیں۔
پاکستان مین پولیو ٹیم ورکرز کو کم تنخواہوں کا بھی مسئلہ ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں خراب موسم اور دشوار گزار علاقوں سے گزر کر پولیو مہم میں حصہ لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں ٹرانسپورٹ یا ہیلتھ سہولیات بھی نہیں ملتی۔
کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ جو ورکرز انٹرنیشنل آگنازیشن کے ساتھ کام کرتے ہیں انہیں زیادہ سیلریز دی جاتی ہیں۔
دوسری جانب نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد بیگ نے کہا کہ امید ہے کہ پاکستان 2026 تک پولیو سے پاک ہوجائے گا۔