1987 میں پہلے انتفادہ نے ظاہر کیا کہ اسرائیلی قبضے کے حوالے سے فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ کیے بغیر فلسطین میں مظاہروں اور بدامنی پر قابو پانا ناممکن ہے۔ فلسطینیوں پر کئی دہائیوں سے جاری ظلم و ستم اب ان کی برداشت سے باہر ہے۔ (یاد رہے کہ انتفادہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کوئی تحریک شروع کرنا، عام طور پر یہ لفظ اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی شہری مزاحمت کررہے ہیں اور اسرائیل کی جوابی کارروائی کی وجہ سے ان میں صرف غصہ اور ناراضی پائی جاتی ہے۔ 1988 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنما یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں نے ’دو ریاستی حل‘ کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔ یاسر عرفات عوام کے غصے کو عملی نتائج میں بدلنا چاہتے تھے اور پہلی انتفادہ میں قائم ہونے والا مزاحمتی گروپ حماس کا اثروسوخ ختم کرکے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے تھے تاکہ صرف یہی فلسطین کی نمائندگی کرے۔
15 نومبر 1988 کو فلسطین لبریشن آرگنازیشن اور اس کے مختلف دھڑوں نے الجزائر میں ایک اجلاس کے دوران فلسطین کی آزادی کا اعلان کیا اور یاسر عرفات کو فلسطین کا صدر منتخب کیا گیا۔ اجلاس کے آخر میں فلسطین کی آزادی کا اعلان تحریری طور پر فلسطینی شاعر محمود درویش نے لکھا۔
البتہ آزادی کے اعلان کے باوجود فلسطین کی زمینی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اورایک جانب فلسطین میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور احتجاج جاری تھا تو اسی دوران عرفات اور ان کی ٹیم اپنا اثر و سوخ برقرار رکھنے کے لیے بے چین تھے۔ یاسر عرفات کا منصوبہ تھا کہ وہ حماس کو سائیڈ لائن کردیں گے اور ایک بار جب احتجاج اور مظاہرے ختم ہوجائیں گے تو فلسطینی عوام پی ایل او کو اپنا واحد سیاسی حل کے طور پر دیکھیں گے لیکن حالیہ تاریخ عرفات کے منصوبے کو بار بار غلط ثابت کررہی ہے۔
گزشتہ ہفتے چین کے دارالحکومت میں حماس اور الفتح سمیت 14 فلسطینی گروپس کی جانب سے دستخط کیے گئے ’بیجنگ ڈیکلریشن‘ کے بارے میں خبریں پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ یہ 14 مختلف گروپ مقبوضہ سرزمین میں کس چیز کے لیے لڑ رہے ہیں۔ فلسطین میں ان گروپس کے درمیان دشمنیاں اور تنازعات کی تاریخ طویل اور دردناک ہے۔ ایسا وقت بھی آیا جب یہ لڑائیاں تقریباً خانہ جنگی کی شکل اختیار کرنے والی تھیں۔
ایسے میں اہم سوالات سامنے آتے ہیں: جب ایک دن صیہونی حکومت کا قبضہ ختم ہوجائے گا تو فلسطین میں کس قسم کی سیاسی صورتحال پیدا ہو گی؟ کیا فلسطینی تحریکیں جو قبضے کے دوران تنازعات کا شکار رہیں اپنے ملک کے مستقبل کی خاطر اکٹھی ہوسکیں گی؟ یا کیا ایک بار جب فلسطین قبضے سے ’آزاد‘ ہوگا تو اس میں افراتفری اور انتشار کا سامنا ہو سکتا ہے جیسا کہ کچھ دوسرے عرب ممالک میں بھی دیکھا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ہم بہت کم غور کرتے ہیں، شاید اس لیے کہ ہم جوابات سے ڈرتے ہیں لیکن یہ جواب ہمارے سامنے ایک حقیقت ہے۔
چین نے حال ہی میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایک بیان دیا ہے، جیسا کہ کئی دوسرے ممالک (قاہرہ، مکہ، ریاض، دوحہ) پہلے کر چکے ہیں، فلسطین کے اندر گہرے تنازعات اور اختلافات کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اگرچہ کچھ فریقین کا دعویٰ ہے کہ ’یہ مفاہمت پچھلی تمام کوششوں سے بہتر ہے، ہمیں بہت امید ہے‘۔ جو بھی شخص قریب سے فلسطین کی صورت حال پر غور کررہا ہے وہ جانتا ہے کہ کسی بیرونی ملک کی مدد سے صرف ایک دستاویز پر دستخط کرنے سے ملک کے اندرونی مسائل حل نہیں ہوجاتے۔
شاید فلسطینی گروپس کو شاہ سلیمان کی مشہور کہانی یاد کرنی چاہیے:
ایک بچے کی ماں ہونے کا دعویٰ کرنے والی دو عورتیں فیصلے کے لیے سلیمان کے پاس آئیں۔ ان عورتوں کی باتیں سن کر سلیمان نے کہا کہ ’مجھے ایک چاقو لادو، میں بچے کے دو حصے کرلیتا ہوں اور تم دونوں کو ایک ایک حصہ دے دیتا ہوں‘، یہ سن کر ایک خاتون خوفزدہ ہوکر التجا کرنے لگی کہ ’ایسا مت کرو! یہ بچہ اِس کا ہے!‘۔ تب سلیمان نے یہ اخذ کیا کہ حقیقی ماں وہ ہے جسے بچے کی بھلائی کی فکر ہے۔
فلسطین کی صورت حال کا جائزہ لیتے وقت ہمیں یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ ’اس بچے کی اصل ماں کون ہے؟‘۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔