امریکا کے صدارتی انتخابات میں صرف دو مہینے باقی رہ گئے ہیں، عوامی رائے کے ایک سروے سے معلوم ہوا کہ ملک بھر میں کملا ہیرس اپنے مخالف ڈونلڈ ٹرمپ سے مسلسل آگے ہیں۔ امریکی انتخابات کے نتائج کا تعین اکثر چند اہم ریاستوں پر ہوتا ہے، جنہیں سوئنگ اسٹیٹس یا غیر جانبدار ریاستیں کہا جاتا ہے۔ اس لیے ان ریاستوں کے پولز حتمی نتائج کی پیشن گوئی کے لیے زیادہ اہم ہیں۔ ملک بھر میں کملا ہیرس کو ستمبر کے آغاز میں ٹرمپ پر 3.2 فیصد کی برتری حاصل تھی، جبکہ جولائی میں دونوں کو برابر کی حمایت ملی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کملا ہیرس نے اگست میں زیادہ مقبولیت حاصل کی لیکن ملک بھر میں ان کی پوزیشن اتنی زیادہ مضبوط نہیں رہی کہ وہ سوئنگ ریاستوں میں بڑی برتری حاصل کر سکے۔ اگلے دو مہینوں میں حیران کن تبدیلیاں آسکتی ہیں لیکن سوئنگ ریاستوں میں صدارتی مباحثے اور ہر امیدوار کی کارکردگی فاتح کا فیصلہ کرے گی۔
(یاد رہے کہ سوئنگ اسٹیٹس یعنی غیرجانبدار ریاستیں، امریکہ میں کچھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن میں سے کسی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوتی اور وہاں الیکشن کے نتائج کسی بھی تبدیل ہوسکتے ہیں)
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے 6 سوئنگ ریاستوں کا سروے شئیر کیا جس کے مطابق ریاست مشی گن میں 48 فیصد اور وسکونسن میں 50 فیصد ووٹ کے ساتھ کملا ہیرس آگے ہیں۔ جبکہ ٹرمپ ان ریاستوں میں بالترتیب 43 فیصد اور 44 فیصد ووٹ کے ساتھ پیچھے ہیں۔ دوسری جانب ریاست ایریزونا میں ڈونلڈ ٹرمپ 49 فیصد ووٹ کے ساتھ آگے اور کملا ہیرس 44 فیصد ووٹ کے ساتھ پیچھے ہیں۔ اس کےعلاوہ ریاست جارجیا میں (48 فیصد ووٹ کے ساتھ کملا ہیرس آگے اور 47 فیصد ووٹ کے ساتھ ٹرمپ پیچھے) اور پنسلوانیا (دونوں 47 فیصد) کے نتائج بہت قریب ہیں۔ ان سوئنگ ریاستوں کے صدارتی انتخابات کے نتائج کسی بھی پلٹ سکتے ہیں۔ سال 2020 کے صدارتی انتخابات میں بائیڈن نے مشی گن میں ایک لاکھ 50 ہزار ووٹ، وسکونسن میں 20 ہزار ووٹ، پنسلوانیا میں 80 ہزار ووٹ، ایریزونا میں 10 ہزار ووٹ اور جارجیا میں 11 ہزار ووٹ سے جیتے تھے۔ سوئنگ ریاستوں میں بائیڈن جیسی فتح حاصل کرنے کے لیے کملا ہیرس کو ایسی ریاست سے جیتنے کی ضرورت ہوگی جہاں سے ٹرمپ پہلے ہی کامیابی حاصل کرچکے ہوں، جو ایک اہم چیلنج ہوگا۔
سوئنگ ریاستوں میں ووٹروں کے تحفظات پورے ملک میں ایک جیسے ہیں۔ جن میں معیشت، امیگریشن، جمہوریت اور تولیدی حقوق شامل ہیں۔ چھوٹے کاروباروں کو سپورٹ کرنے کے لیے اکنامک سپورٹ کے پروگرام سے متعلق کملا ہیرس کے حالیہ اعلان کا مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متعلق سیاسی چیلنجز کو دور کرنا ہے جو بائیڈن کے دور صدارت میں ایک چیلنج تھا۔ وہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے، پہلی بار گھر خریدنے والوں کو ادائیگی میں مدد فراہم کرنے، چھوٹے کاروباروں کے لیے ٹیکس میں کٹوتیاں اور کیپٹل گین ٹیکس کی شرح کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔
ٹرمپ کی سینیٹر جے ڈی وینس کو نائب صدر کے امیدوار کے طور پر منتخب کرنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک شاید یہ یقینی بنانا تھا کہ کوئی ایسا ہو جو سوئنگ ریاستوں میں ووٹروں کو راضی کرنے میں مدد کرے۔ جے ڈی وینس کملا ہیرس کی معاشی پالیسیوں اور ان کی بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات پر تنقید اس لیے کررہے ہیں وہ یہ ظاہر کرسکیں کہ کملا ہیرس بائیڈن سے الگ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس امیگریشن کو محدود کرکے امریکی ورکرز کے تحفظ پر بات کررہے ہیں جبکہ ہیرس کو معلوم ہے کہ بائیڈن کی ترقی پسند معاشی پالیسیوں نے کچھ سیاسی چیلنجز پیدا کیے ہیں، اس لیے وہ ان خدشات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ جمہوریت کو کمزور کرنے اور تولیدی حقوق کو محدود کرنے سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے موٴقف سے ڈیموکریٹک ووٹروں کی حمایت بڑھ سکتی ہے۔ تاہم جو ووٹرز کسی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرتے انہیں اپنی طرف لانے کے لیے کملا ہیرس کو معیشت اور امیگریشن کے بارے میں واضح اور مضبوط پیغام دے کر ٹرمپ کی برتری کو کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اگلے ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان پہلا صدارتی مباحثہ سوئنگ ریاستوں میں ووٹرز کی رائے پر اثر ڈال سکتی ہے تاہم اس سے دوڑ کے نتائج مکمل طور پر تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ جون میں ہونے والے صدارتی مباحثے میں ٹرمپ کے خلاف بائیڈن کی کمزور کارکردگی (جس کے بعد ان کی بڑھتی عمر اور ذہنی قابلیت سے متعلق خدشات پیدا ہوئے) صدارتی دوڑ سے باہر ہونے کی وجہ بنی۔ تاہم 10 ستمبر کو ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان اسی طرح کے سرپرائز کی توقع نہیں ہے کیونکہ امکان ہے کہ دونوں امیدوار اپنی حکمت عملیوں پر قائم رہیں گے۔ اگرچہ دونوں امیدواروں کا مقصد اپنے ووٹرز کو قائل کرنا ہوگا لیکن انہیں سوئنگ ریاستوں کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ یہ غیر یقینی ہے کہ آیا کملا ہیرس معیشت اور امیگریشن کے معاملات پر کوئی غیر معمولی اقدام اٹھائیں گی، جہاں ٹرمپ کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ تاہم صرف جمہوریت اور تولیدی حقوق پر توجہ دینا ان کے جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
امریکی صدارتی مباحثوں کا ایک بنیادی مقصد امیدواروں کو ایسا مواد دینا ہے جسے وہ بعد میں وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر سکیں۔ ٹرمپ اپنے مخالفین کے کمزور لمحات اور غلطیوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں ماہر رہے ہیں۔ تاہم کملا ہیرس کی صدارتی امیدوار کے لیے نامزدگی کے بعد ٹرمپ کے ان پر ذاتی حملے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے۔ ان کے ہیرس پر نسلی شناخت سے متعلق تبصرے اور انہیں سماج پر پابندی لگانے والی سیاستدان کہنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ 10 ستمبر کے مباحثے میں ٹرمپ ممکنہ طور پر کملا ہیرس کو کسی اور نام کے ساتھ لیبل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ چونکہ کملا ہیرس ایک خاتون ہیں تو ٹرمپ ان پر ذاتی حملے نہ کریں۔ ٹرمپ ممکنہ طور پر معیشت اور امیگریشن پر توجہ مرکوز کریں گے، جب کہ کملا ہیرس خود کو بائیڈن سے الگ کرنے اور اہم مسائل پر اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔