ان دنوں بائیڈن انتظامیہ ایران کو اسرائیل پر حملہ نہ کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم نیتن یاہو کی حکومت کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی ضرورت سے زیادہ حمایت کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ پچھلے سال 7 اکتوبر کے حملے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف مسلسل اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا بلکہ انسانی حقوق کے قوانین (جو امریکا دوسرے ممالک پر عائد کرتا آیا ہے) کو نظر انداز کیے بغیر اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کیے۔ جب امریکا نے رفح میں آپریشن کو ’ریڈ لائن‘ قرار دیا تو نیتن یاہو
ان دنوں بائیڈن انتظامیہ ایران کو اسرائیل پر حملہ نہ کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم نیتن یاہو کی حکومت کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی ضرورت سے زیادہ حمایت کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔ پچھلے سال 7 اکتوبر کے حملے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف مسلسل اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا بلکہ انسانی حقوق کے قوانین (جو امریکا دوسرے ممالک پر عائد کرتا آیا ہے) کو نظر انداز کیے بغیر اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کیے۔
جب امریکا نے رفح میں آپریشن کو ’ریڈ لائن‘ قرار دیا تو نیتن یاہو کی جانب سے ’ریڈ لائن‘ کو نظر انداز کرنے کے باوجود بائیڈن نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ امریکا اقوام متحدہ میں اسرائیل کو تحفظ دینے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہے یہاں تک کہ اگر اسے ایسا کرنے سے اسے عالمی برادری میں تنہا بھی رہنا پڑے۔ یہاں تک کہ اسرائیل کو سپورٹ کرنے پر بائیڈن کے خلاف اسرائیل مخالفین مظاہرین نے ’Genocidal Joe‘ (یعنی نسل کشی کرنے والے جوبائیڈن) کے نعرے لگائے۔ اس کے باوجود بائیڈن کی پالیسی نہ تو جنگ بندی کامیاب بنا سکی اور نہ ہی خطے میں بڑی جنگ کے خطرے کو روک سکی۔
بائیڈن کی کمزوری
اپنے صدارتی دور کے دوران بائیڈن کو اسرائیل کی طرف سے پیدا کیے گئے ملک کے سیاسی اور سفارتی مسائل دیکھنا پڑے، بعض اوقات بائیڈن نے میڈیا کے سامنے اپنی ناراضی ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے غزہ سے متعلق نیتن یاہو سے کتنی سختی سے بات کی ہے۔ میڈیا کے سامنے نیتن یاہو پر غصے کا اظہار کرنا اور اسی دوران اسرائیل کی حفاظت کے لیے جنگی طیارے بھیجنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ بائیڈن موٴثر پالیسیاں بنانے اور اسرائیل کو راضی کرنے میں ناکام رہے۔
پیر کو قومی سلامتی کے اجلاس سے لیک ہونے والے پیغام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بات پر غیر یقینی صورتحال ہے کہ ایران کب اور کیسے اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے لیکن اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکا اسرائیل کی حمایت جاری رکھے گا۔ بائیڈن انتظامیہ غزہ میں لڑائی کو روکنے یا اسرائیل ایران تنازع کو ایک بڑی علاقائی جنگ میں بڑھنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اسرائیل یا ایران میں سے کسی کو بھی اپنی مرضی پر راضی کرنے سے قاصر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ (جو غزہ میں لڑائی کو روکنے یا اسرائیل ایران تنازعے کو ایک بڑی جنگ کے خطرات سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی) اسرائیل یا ایران میں سے کسی ایک کو اپنے راستے پر چلنے کے لیے راضی کرنے میں ناکام ہے۔
چونکہ بائیڈن امریکی مفادات کو ترجیح دے کر ایک موٴثر سفارتی حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکتے اس لیے انتظامیہ اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر صفائیاں دیتی نظر آرہی ہے اور خطے میں کشیدگی بڑھنے پر ایران کو پرسکون رہنے کی ہدایت کررہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بائیڈن انتظامیہ نیتن یاہو کے جاری اقدامات کو چیلنج کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اس کے بجائے وہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کے لیے ایران کو تنازعے میں لانے کی کوششوں کررہی ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے کہا تھا کہ اسرائیل کی غزہ میں کارروائیں اس وقت تک قابل قبول ہیں جب تک کہ یہ غزہ تک محدود رہتے ہیں اور علاقائی تنازعے کا باعث نہیں بنتے۔ تاہم امریکا اپنے اس بیان پر خود ہی عمل نہیں کرسکا۔ بائیڈن نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے نیتن یاہو کی جنگی حکمت عملی کو نظر انداز کرکے ملک میں نومبر کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جنگ بندی کا ساتھ دیا۔ تاہم نیتن یاہو نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا (جو جنگ بندی اور دیرپا امن مذاکرات کے لیے اہم شخصیت تھے)۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں ہنیہ کو نشانہ بنا کر نیتن یاہو نے علاقائی تنازعے میں اضافہ کردیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ، جو اب نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے میں ناکام نظر آرہی ہے، دیگر ممالک کے ذریعے پیغامات بھیج کر ایران کے ردعمل میں نرمی کی کوشش کررہی ہے۔
اپریل میں جوبائیڈن نے یہ وضح کرنے کی کوشش کی کہ ایران اسرائیل پر کب اور کیسے حملہ کرسکتا ہے تاکہ تل ابیب کی سیکیورٹی یقینی بنائی جائے۔ تاہم انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ نیتن یاہو کا اصل ہدف اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے تنازعے کو بڑھانا ہے۔ آج اگر حماس نے سرنڈر کر بھی لیا تو نیتن یاہو حماس کو نہ صرف حماس کو ناقابل اعتماد قرار دے گا بلکہ اصرار کرے گا کہ اصل مسئلہ ایران ہے اور علاقائی جنگ کو جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ نیتن یاہو (جو فلسطین ریاست کے قیام کے خلاف رہا ہے اور امن کی کوششوں کے لیے کوئی موٴثر موٴقف نہیں اپنایا) امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا فائدہ اٹھا کر اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی صرف اس صورت یقینی ہوگی جب ایران کو حکومت بدلے گی۔ بائیڈن سے نیتن یاہو جیسے سیاسی رہنما کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے خطے میں تناؤ کو کم کرنے کی توقع رکھنا حقیقت کے برعکس ہے۔
وزیر خارجہ ہاکان فیدان کی وارننگ
اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کی طرف سے ملنے والی حمایت کے بارے میں ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے بیان دیا کہ جاری علاقائی جنگ نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ اسرائیل اور ایران ایک دوسرے کے سخت ترین مخالفت ہیں اور دونوں دیرپا امن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حقیقی اور دیرپا امن تب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب دونوں یہ مان لیں کہ امن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر امریکہ امن کے حصول کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ جاری اور بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی ایران اور اسرائیل کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے واضح پالیسی بنائے بغیر واشنگٹن ترکیہ جیسے ممالک کے ساتھ سفارتی رابطہ تعلقات قائم نہیں کرسکے گا جو جاری تنازع کو اپنے مفادات کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔
بائیڈن کو نیتن یاہو پر یہ واضح کرنا چاہیے کہ تنازعے میں اضافہ کرنے سے ان کی قیادت خطرے میں پڑسکتی ہے۔ ساتھ ہی انہیں ایران کے سخت گیر رہنماوٴں کو یقین دلانا چاہیے کہ اسرائیل ایران پر اپنے براہ راست حملے بند کر دے گا۔ بائیڈن انتظامیہ، جو امریکہ میں اسرائیل کے حامیوں کے ردعمل سے خوفزدہ ہے، نیتن یاہو پر دباؤ نہیں ڈال سکتی اور نہ ہی ایران کے ساتھ برابری کا رویہ اپنا سکتی ہے۔ بائیڈن کا اسرائیل پر دباوٴ نہ ڈالنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی پالیسیاں فائدہ مند نہیں ہیں اور وہ خطے میں ہونے والی پیش رفت میں بیانات کے ذریعے ردعمل ظاہر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے اور اس بات کا امکان کم نظر آتا ہے کہ وہ اسرائیل یا ایران میں سے کسی ایک کو قائل کرسکیں گے۔