کیا قاتلانہ حملہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی کرسی تک لے جائے گا؟

14:135/08/2024, پیر
general.g5/08/2024, پیر
قدیر استن

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کے بعد ملک میں صدارتی دوڑ کے نتائج واضح طور پر تبدیل ہوگئے ہیں. ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ایسے وقت پیش آیا جب ڈیموکریٹس کی جانب سے صدر جوبائیڈن پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔ قاتلانہ حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں تو عوام انہیں ایسے رہنما کے طور پر دیکھنے لگے جو خطرہ مول لے کر امریکی عوام کے لیے لڑتے ہیں۔ ریپبلکنز اس صورتحال کو سیاسی فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ٹرمپ کو اب اپنے حامیوں کو اکھٹا کرنا اور

خبروں کی فہرست

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کے بعد ملک میں صدارتی دوڑ کے نتائج واضح طور پر تبدیل ہوگئے ہیں. ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ایسے وقت پیش آیا جب ڈیموکریٹس کی جانب سے صدر جوبائیڈن پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔


قاتلانہ حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں تو عوام انہیں ایسے رہنما کے طور پر دیکھنے لگے جو خطرہ مول لے کر امریکی عوام کے لیے لڑتے ہیں۔ ریپبلکنز اس صورتحال کو سیاسی فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ٹرمپ کو اب اپنے حامیوں کو اکھٹا کرنا اور ریپبلکنز کی مکمل حمایت حاصل کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس تمام صورتحال کے باوجود ملک کی پولرائزڈ سیاست کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ ٹرمپ یقینی طور پر امریکہ کے اگلے صدر ہیں۔


ناقص سیکیورٹی اور ہائی پروفائل ٹارگٹ


ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت سے سازشی نظریے (کانسپریسی تھیوریز) تجویز کیے گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے مختلف تھیوریز بنائیں، ان میں دعویٰ کیا گیا کہ امریکا کے ڈیپ اسٹیٹ (خفیہ ادارے) ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کام کررہے ہیں اور ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، یہی نہیں بلکہ کئی تھیوریز میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ’سٹیجڈ‘ (یعنی ڈرامہ) تھا۔


البتہ یہ ہم ضرور جانتے ہیں کہ سیکرٹ سروس ٹرمپ کے حفاظت کی ذمہ دار تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ اس ناکامی کی وجوہات پر اب تک اگلے کئی مہینوں تک تحقیقات اور بحث ہوتی رہے گی۔ سیکرٹ سروس کی کارکردگی اور طریقہ کار کی بھی چھان بین کی جائے گی اور یہ پہلی بار نہیں ہے کہ یہ بحث کا موضوع بنا ہو۔


اس بات کا امکان ہے کہ ریپبلکن سیاسی حکمت عملی کے تحت اس واقعے کا الزام ڈیموکریٹس پر ڈالنے کی کوشش کریں گے اور سیکرٹ سروس کی پرفارمنس کی تحقیقات کا عمل سیاسی ہوسکتا ہے اور اسے سیاسی پولرائزیشن کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اس طرح کی حکمت عملی سے ٹرمپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔


اگرچہ کسی بھی قاتلانہ حملے کی تحقیقات کرنا معمول کی بات ہے لیکن اسے ڈیموکریٹس اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف ایک سیاسی جنگ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ملک کو نقصان ہوسکتا ہے۔ صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کو عوام کے لیے ایک ایسا لیڈر ہونا چاہیے کہ جس نے اپنے ملک کے لیے گولی تک برداشت کرلی لیکن پھر بھی وہ ایسے واقعے کے بعد وہ قوم کو متحد یا ایک پیج پر کھڑا کرسکتے ہیں۔


ٹرمپ کو اب بھی ووٹرز کو اپنی طرف قائل کرنے ضرورت ہے اور اگرچہ ٹرمپ کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ ووٹرز کو یقین دلائیں کہ بائیڈن صدارتی مباحثے میں اپنی خراب کارکردگی کے بعد ملک چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ تاہم ٹرمپ کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ ووٹرز کو یقین دلائیں کہ وہ ملک کو افراتفری یا غیر یقینی صورتحال کی طرف نہیں لے جائیں گے۔


نائب صدر جے ڈی وینس


دوسری جانب ریپبلکن پارٹی کی کانگریس میں ٹرمپ نے اوہائیو کے 39 سالہ سینیٹر جے ڈی وینس کو اپنا نائب صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جے ڈی وینس اس سے قبل ٹرمپ کے لیے سخت الفاظ کرنے والے سینیٹر کے طور پر پہنچانے جاتے تھے اور ان پر تنقید کرتے ہوئے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔


وینس نے ’ہِلبِلی ایلیجی‘ (Hillbilly Elegy) کے عنوان سے اپنی سوانح عمری شائع کر کے خوب نام بھی کمایا۔ اس کتاب میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح غربت میں رہنے والے سفید فام لوگوں کو فلاحی ریاست میں کن مسائل کا سامنا ہے اور وہ ٹرمپ جیسے پاپولسٹ لیڈروں کی حمایت کررہے ہیں۔


2016 میں ٹرمپ ایسے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو بے روزگاری اور منشیات جیسے مسائل سے تنگ تھے۔ تاہم وہ بائیڈن کو محنت کش طبقے سے حمایت حاصل کرنے سے نہیں روک سکے، اس کی ایک وجہ مزدور یونینوں کے ساتھ بائیڈن کے اچھے تعلقات تھے۔ وینس کو نائب صدر نامزد کرکے ٹرمپ نے ایک اہم الیکشن اسٹریٹیجی اپنائی ہے۔


جے ڈی وینس کو نائب صدر نامزد کرنے کا فیصلہ اور قاتلانہ حملے سے ہمدردی اور سیاسی حمایت حاصل کرنا فی الحال ان کے حق میں کام کررہا ہے۔ اگر ٹرمپ لوگوں کو تقسیم کرنے والی سیاست کا استعمال بند کر دیتے ہیں اور اس کے بجائے لوگوں کو متحد کرنے پر زور دیتے ہیں تو انہیں سیاسی طور پر مزید فائدہ ہوگا۔


تاہم جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حملہ سیاسی پولرائزیشن کا نتیجہ ہے وہ حالیہ سیاسی ماحول کا ذمہ دار ٹرمپ کو ٹھہرائیں گے۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کو ووٹ دینا ملک کو ایک نئی مصیبت کی طرف لے جائے گا۔ اس صورتحال میں ڈیموکریٹس نئے امیدوار کا انتخاب کرکے اہم تبدیلی لا سکتے ہیں اور ریپبلکنز کے ساتھ صورتحال برابر ہوسکتی ہے۔


دوسری صورت میں اگر بائیڈن الیکشن لڑنے پر بضد ہیں تو ڈیموکریٹس کے لیے صورتحال مشکل ہوجائے گی کیونکہ قاتلانہ حملے کے بعد ٹرمپ کے خلاف محاذ بنانا ڈویموکریٹس کی جیت کے لیے کافی نہیں۔


اگرچہ اگست 2016 میں ٹرمپ کی انتخابی مہم انتشار کا شکار تھی اس کے باوجود ہلری کلنٹن کے خلاف تحقیقات نے الیکشن کا رخ بدل دیا تھا۔ اور ٹرمپ کی انتخابی مہم چند مہینوں میں ہی دوبارہ ابھری اور الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس سال بائیڈن الیکشن کی دوڑ میں رہیں گے یا نہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کانگریس اپنا اگلا لائحہ عمل کیا اپنائے گی۔


اور اگر ڈیموکریٹک پارٹی اپنی پوزیشن واضح کردیتی ہے تو اس دوران دیگر کئی بدلتی ہوئی چیزیں الیکشن کا رخ بدل سکتی ہے، فی الحال ٹرمپ کی اس وقت مضبوط پوزیشن ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ٹرمپ ہی صدر بنیں گے۔ صدر بننے کے لیے یہ کافی نہیں کہ آپ کسی دہشت گرد حملے کا ہدف بن کر لوگوں سے ہمدری سمیٹیں بلکہ ووٹرزکے لیے یہ بھی اہم ہے کہ ٹرمپ کس طرح ملک کی قیادت کریں گے جو ڈیموکریٹس سے مختلف ہو۔


#Donald Trump
#America
#Presidential Election
#Joe Biden