امریکہ صدارتی الیکشن 2024: امریکی اخبارات امیدواروں کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیوں کرتے ہیں؟

07:4630/10/2024, بدھ
جنرل1/11/2024, جمعہ
ویب ڈیسک
دو بڑے امریکی اخبارات کا ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی حمایت نہ کرنے کا اعلان
دو بڑے امریکی اخبارات کا ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی حمایت نہ کرنے کا اعلان

دو بڑے اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز نے 30 سالوں میں پہلی بار کسی بھی امیدوار کو سپورٹ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دو بڑے اخبارات واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز نے امریکی الیکشن میں کسی بھی امیدوار کو سپورٹ نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور ایسا 30 سالوں میں پہلی بار ہوا ہے۔

امریکہ میں اخبارات کی جانب سے صدارتی امیدوروں کی حمایت الیکشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ برسوں سے ایک روایت رہی ہے تاہم واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز نے 36 برس میں پہلی بار وضاحت دی کہ وہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ یا ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس میں سے کسی ایک کی بھی حمایت نہیں کریں گے اور اب سے اسی اصول پر ہمیشہ قائم رہیں گے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مالک ایمازون کے بانی اور ارب پتی جیف بیزوس ہیں جبکہ لاس اینجلس ٹائمز کے مالک بائیوٹیک ٹائکون پیٹرک سون-شیونگ ہیں۔

الجزیرہ کی
کے مطابق واشنگٹن پوسٹ کے تقریباً 2 لاکھ قارئین نے احتجاجاً اپنی سبسکرپشن منسوخ کر دی ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ امیدواروں کی حمایت نہ کرنے کے فیصلے کے پیچھے سیاسی دباؤ ہوسکتا ہے۔ لاس اینجلس ٹائمز میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملا جبکہ دونوں اخبارات کے کئی ملازمین نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

یہ اعلان کیوں کیا گیا؟

دونوں نیوز آؤٹ لیٹس کے مالکان نے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ انڈپنڈنٹ رپورٹنگ کے تحفظ کے لیے کیا ہے تاکہ لوگ اپنا فیصلہ اپنی مرضی سے لیں۔

تاہم کئی لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ میڈیا آوٴٹ لیٹس کے مالکان اپنے کاروباری مفادات کی وجہ سے ایسا کررہے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کے مالک نے اپنے بیان کہا کہ ’دنیا کے سب سے اہم ملک کے دارالحکومت کے بڑے اخبار کے طور پر ہمارا کام انڈپنڈنٹ رپورٹنگ کرنا ہے اور اب ہم ایسا ہی کریں گے۔‘

اسی طرح لاس اینجلس ٹائمز کے مالک نےکہا کہ ’ہمارا کام ہے کہ اپنے قارئین کو بہتر طریقے سے آگاہ کریں، فیصلہ لینے کا حق عوام کا ہے وہ خود فیصلہ کریں کہ کس کو ووٹ دینا ہے‘۔

امریکہ کے دو بڑے اخبارات کی جانب سے ان اعلانات کے بعد اداروں کے اسٹاف کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا اور آزادی صحافت کے بارے میں بحث چھڑ گئی کہ آیا الیکشن کے دوران اخبارات کو مکمل طور پر غیر جانبدار(نیوٹرل) رہنا چاہیے۔ کسی صدارتی امیدوار کو کھلے عام سپورٹ کرنے سے رپورٹنگ جانبدارانہ (biased) نہیں ہوجائے گی؟ اس سوال کے جواب میں امریکی اخباروں کا کہنا ہے کہ ’نہیں‘۔ وہ ایسا اصولوں اور پالیسیز کی خاطر کرتے ہیں نہ کہ کون کتنے ڈالرز دے رہا ہے۔


اخبارات کی طرف سے الیکشن کے دوران امیدوار کی حمایت کی تاریخ کیا ہے؟

امریکہ میں اخبارات کی جانب سے صدارتی امیدوار کی حمایت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پہلی بار ایسا 1860 میں ہوا جب شکاگو ٹریبیون نے ابراہم لنکن کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ نے الیکشن کے دوران سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنے کی روایت 48 سال پہلے شروع کی تھی جب اخبار کے مالک نے ڈیموکریٹ امیدوار جمی کارٹر کی حمایت کی۔

لاس اینجلس ٹائمز نے 1976 سے 2004 تک صدارتی امیدوار کی حمایت نہیں کی۔ تاہم 2008 میں اس نے ڈیموکریٹ امیدوار باراک اوباما کی حمایت کی اور اس کے بعد سے امیدواروں کی حمایت جاری رکھی۔

کچھ نیوز آوٴٹ لیٹس نے پہلے اس روایت کو ختم کردیا ہے۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز اب نہ صدارتی الیکشن اور نہ کسی لوکل الیکشن میں کسی امیدوار کی حمایت کرتا ہے۔

اس سال کے انتخابات میں ٹرمپ کو واشنگٹن ٹائمز اور نیویارک پوسٹ سے سپورٹ ملی۔ دوسری طرف کملا ہیرس کو نیویارک ٹائمز، بوسٹن گلوب، رولنگ سٹون میگزین اور فلاڈیلفیا انکوائرر سے حمایت ملی ہے۔

اس طرح فاکس نیوز اور دیگر نیوز آوٴٹ لیٹس سمیت تقریباً 80 اخبارات نے کملا ہیریس کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ 10 سے کم اخبارات نےڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی۔




اخبارات صدارتی امیدواروں کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیوں کرتے ہیں؟

امریکہ میں اخبارات کے مالکان کا خیال ہے کہ ان ایسا کرنے سے قارئین کو سیاسی امیدواروں کے بارے میں صحیح تجزیہ اور معلومات ملتی ہیں اور وہ ان کے بارے میں باخبر رہتے ہیں جس سے انہیں ووٹ دینے میں مدد ملتی ہے۔

یاد رہے کہ میڈیا آوٴٹ لیٹس کی جانب سے سیاسی امیدوار کو سپورٹ کرنے کے اعلان سے ادارے کا سیاسی جھکاوٴ رہتا ہے اور وہ نیٹرل نہیں رہتے۔

اپنے بیان میں واشنگٹن پوسٹ کے سی ای او نے وضاحت کی کہ اخبار کا کملا ہیرس کی حمایت نہ کرنے کے انتخاب کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو آزادی ہے کہ وہ اگلے صدر کے لیے اپنے ووٹ کا فیصلہ خود کریں۔ یہ الیکشن ان کے لیے بہت اہم ہیں۔


تو کیا اخباروں کے امیدواروں کو سپورٹ کرنے کے اعلان سے ووٹرز پر کوئی اثر پڑتا ہے؟

اگر ماضی کی بات کریں تو ہاں۔

یہ ان وقتوں کی بات ہے جب سوشل میڈیا کا رجحان زیادہ نہیں تھا اور لوگ دنیا سے باخبر رہنے کے لیے ٹی وی عام ذریعہ تھا، اُس وقت اخباروں کی جانب سے سپورٹ کا اعلان ووٹرز پر کافی اثر ڈالتا تھا۔

1940 کے بعد سے دیکھیں تو جس امیدوار کو اخباروں کی جانب سے جتنی زیادہ سپورٹ ملی اس کے جیتنے کے چانسز زیادہ تھے۔ لیکن اب یہ سائیکل تبدیل ہوگیا ہے کیونکہ لوگوں کا میڈیا پر بھروسہ کم ہوگیا پے۔ ایک سروے کے مطابق صرف 31 امریکی ٹریڈیشنل میڈیا آوٴٹ لیٹس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2004 میں جان کیری کو جارج ڈبلیو بش کے مقابلے زیادہ سپورٹ ملی لیکن آخر میں جارج بُش الیکشن جیتے۔ 2016 میں ہیلری کلنٹن کو 240 اخباروں نے سپورٹ کیا اور ٹرمپ کو صرف 6 اخباروں کی سپورٹ ملی لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ بنے۔ اور اس بار کملا ہیرس کو 80 اور ٹرمپ کو صرف 10 اخباروں کی سپورٹ ملی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے بار صدر کا عہدہ سنبھالیں گے؟



#امریکا
#صدارتی الیکشن
#امریکا صدارتی الیکشن2024
#میڈیا
#آزادی