
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے آج کاروبار اور ٹرانسپورٹ بند رکھنے کی ہڑتال کا اعلان کیا ہے جبکہ کوئٹہ میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کر دی گئی ہے۔
کوئٹہ میں جمعہ کی رات دیر گئے پولیس اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پولیس اہلکار سمیت نو لوگ زخمی اور تین لوگ جاں بحق ہوگئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بدھ کے روز اپنے تین ارکان کی مبینہ جبری گرفتاری کا الزام سیکیورٹی اداروں پر عائد کیا اور سریاب روڈ پر احتجاج کی کال دی تھی۔
احتجاج کی یہ کال اس وقت دی گئی جب گزشتہ ہفتے جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیکنگ کے بعد ہلاک ہونے والے مبینہ عسکریت پسندوں کی لاشیں لے جانے کی کوشش کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ حکام کے مطابق صوبائی حکومت نے سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانے پر دھاوا بولنے والے مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کیا اور جمعرات کو 12 مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے دشوار گزار اور پہاڑی علاقے بولان میں پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین کو یرغمال بنا لیا تھا، جس میں 400 سے زائد مسافر سوار تھے۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس محاصرے کا خاتمہ پاکستان فوج کی جانب سے کیے گئے آپریشن کے نتیجے میں ہوا، جس میں 33 عسکریت پسند مارے گئے۔ اس حملے میں 30 سے زائد پاکستانی سیکیورٹی اہلکار اور شہری ہلاک ہوئے تھے۔
حکومتی ردعمل اور مظاہرین کے الزامات
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین نے کوئٹہ میں شاہراہیں بلاک کر دی تھیں، جس پر پولیس نے قانونی کارروائی کی۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا، جس کے نتیجے میں کئی پولیس اہلکار اور شہری زخمی ہوگئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی سریاب روڈ پر دھرنا دے رہی تھی اور اس میں تین افراد کی لاشیں رکھی گئی تھیں، جن کے بارے میں ان کا الزام تھا کہ انہیں سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے ہلاک کیا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا کہ حکومت اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ مظاہرین کس کی میتیں روڈ پر رکھ کر احتجاج کر رہے ہیں، جب تک ان لاشوں کو طبی قانونی کارروائی کے لیے ہسپتال نہیں لایا جاتا، موت کی اصل وجوہات معلوم کرنا ناممکن ہے۔
کوئٹہ ٹراما سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر ارباب کامران کاکاسی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ہسپتال میں نو زخمی افراد لائے گئے، جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ چھ معمولی زخمیوں کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا، دو افراد زیر علاج ہیں، جبکہ ایک کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مؤقف
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ اور معروف انسانی حقوق کارکن ڈاکٹر مہرنگ بلوچ نے پولیس پر الزام لگایا کہ اس نے ایک پرامن ریلی پر فائرنگ کرکے تین مظاہرین کو ہلاک کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے آج کوئٹہ کے سریاب روڈ پر ایک پرامن دھرنے کی کال دی تھی، لیکن پولیس نے ہمارے مظاہرین پر حملہ کر دیا، اب ہم سریاب روڈ پر تین مقتول کارکنوں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دیے ہوئے ہیں اور جب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا، ہم احتجاج ختم نہیں کریں گے۔‘
انتظامیہ کی وضاحت
دوسری جانب کوئٹہ کے کمشنر آفس نے حکام کی جانب سے فائرنگ کی خبروں کو مسترد کر دیا۔
ایک سرکاری بیان میں بتایا کہ ’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران انتظامیہ کی جانب سے کوئی شیلنگ نہیں کی گئی۔ کسی قسم کے ربڑ کی گولیاں استعمال نہیں کی گئیں، ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے صرف واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ انتظامیہ پرامن احتجاج کے حق کا احترام کرتی ہے، تاہم، قانون شکنی اور ریاستی اداروں پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کوئٹہ میں مظاہرین پر فائرنگ اور ہلاکتوں پر اظہارِ تشویش
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کوئٹہ میں مظاہرین پر فائرنگ سے تین افراد کی ہلاکت اور درجن کے قریب افراد کے زخمی ہونے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ ’پرامن احتجاج کے حق کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکام نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں، آنسو گیس استعمال کی اور اس کے بعد غیر قانونی طور پر خطرناک ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ شہر میں موبائل نیٹ ورکس معطل ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر پرامن مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن بند کریں اور آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے حقوق کی ضمانت دیں۔
بلوچستان میں بدامنی، علیحدگی پسند حملوں میں اضافہ
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن معاشی اور سماجی لحاظ سے سب سے پسماندہ سمجھا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں سے یہاں علیحدگی پسند باغیوں کی تحریک جاری ہے، جو صوبے کے وسائل میں کے لیے لڑ رہے ہیں۔
علیحدگی پسند عسکریت پسند، جیسے کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، وفاقی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بلوچستان کے مقامی لوگوں کو معدنی وسائل میں حصہ نہیں دے رہی۔ تاہم وفاقی حکومت اور فوج ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے صوبے کی ترقی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچ علیحدگی پسند گروہوں، خاص طور پر بی ایل اے کے حملوں میں گزشتہ سال تقریباً 300 افراد ہلاک ہوئے۔
ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔
اپنے خیالات کا اظہار کریں!