
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کے خلاف دہشت گردی، بغاوت اور قتل کے الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمہ درج کردیا گیا۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق 19 مارچ کو کوئٹہ کے سول لائنز تھانے میں ماہ رنگ بلوچ اور 12 دیگر نامزد ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔
ایف آئی آر کے مطابق ماہ رنگ بلوچ پر پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں دفعہ 124 اے (بغاوت)، دفعہ 147 (فساد پھیلانے)، دفعہ 149 (کسی بھی غیر قانونی ہجوم میں شامل ہر فرد کو جرم کا ذمہ دار سمجھنا)، دفعہ 153A (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دینا)، دفعہ 186 (سرکاری ملازم کو اس کے فرائض کی انجام دہی سے روکنا)، دفعہ 337اے ڈی (لڑائی جھگڑا اور توڑ پھوڑ)، دفعہ 342 (کسی کو ناحق قید میں رکھنے یا زبردستی روکنے کی سزا)، دفعہ 353 (سرکاری ملازم کو اس کے فرائض سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ طاقت کا استعمال)، دفعہ 356 (کسی شخص کے پاس موجود جائیداد چھیننے کی نیت سے حملہ یا مجرمانہ طاقت کا استعمال) اور دفعہ 505 (ایسے بیانات دینا جو عوامی بدامنی کو ہوا دیں) شامل ہیں۔
ان دفعات کو دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 11 وی (دہشت گرد سرگرمیوں کی ہدایت دینا) کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق تقریباً 150 افراد نے سول ہسپتال کے مردہ خانے پر دھاوا بول کر جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیکنگ میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشیں قبضے میں لے لی تھیں۔
وکیل عمران بلوچ نے تصدیق کی کہ ماہ رنگ بلوچ اس وقت کوئٹہ کی جیل میں قید ہیں۔
دوسری جانب بلوچ قوم کا دعویٰ ہے کہ انہیں وفاقی حکامت کی جانب سے ہراسانی اور ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
تاہم پاکستان کی فوج اور حکومت نے ان الزامات کو سختی سے تردید کی ہے۔
پاکستان کو بلوچستان میں کئی دہائیوں سے جاری علیحدگی پسند تحریک کا سامنا ہے، جہاں عسکریت پسند ریاستی فورسز اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
جمعہ کے روز ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کارکنوں نے کوئٹہ میں واقع بلوچستان یونیورسٹی کے باہر دھرنا دیا تھا۔
انہوں نے اپنے اُن کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں سیکیورٹی اداروں نے حراست میں لے رکھا ہے۔
ہفتے کی صبح پولیس نے چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کارکنوں کو گرفتار کیا تھا، جس کے دوران کم از کم تین مظاہرین ہلاک ہوگئے۔ دونوں فریقین نے ان ہلاکتوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ میری لاولر نے ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
گزشتہ سال، ماہ رنگ بلوچ کو ٹائم میگزین کے 'ابھرتے ہوئے رہنماؤں' کے اعزاز میں شرکت کے لیے امریکا جانے سے روک دیا گیا تھا۔
بلوچ احتجاجی مظاہروں کی قیادت اکثر خواتین کرتی ہیں۔ تیس سالہ ماہ رنگ بلوچ نے 16 سال کی عمر میں سرگرمی کا آغاز کیا، جب ان کے والد لاپتا ہوگئے تھے۔ ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں جبری طور پر اغوا کیا گیا تھا، اور دو سال بعد ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔
ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔
اپنے خیالات کا اظہار کریں!