حالیہ دنوں کی سب سے اہم خبروں میں سے ایک یہ ہے: ’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے ملٹری سیکریٹری آر گوفمین کو ماسکو بھیج دیا۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ روس شام میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے۔‘
اس خبر کا ایک دلچسپ پس منظر ہے، جو اسرائیلی میڈیا میں شائع ہوئی۔ اسرائیل، ترکیہ کے بارے میں دن بہ دن زیادہ فکر مند ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو ترکیہ سے شام کے بارے میں وہ جواب نہیں ملا جو وہ چاہتا تھا۔ موجودہ صورتحال کیا ہے؟ آئیے تفصیل سے جانتے ہیں۔
اسرائیل کی بنیادی حکمت عملی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ شام کمزور اور تقسیم رہے اور بشارالاسد اس مقصد کے لیے موزوں شخصیت تھے، کیونکہ وہ اپنی ہی عوام کے ساتھ تنازعے میں تھے اور ملک ٹوٹنے کے قریب تھا۔ اسرائیل کے لیے شام میں اسد اور ایران کی موجودگی ایک مثالی صورتحال تھی۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اُس وقت اسرائیل کا روس کے ساتھ ایک معاہدہ تھا۔ شام کی فضائی حدود روس اور امریکہ دونوں کے کنٹرول میں تھی۔ 2019 میں روس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت اسرائیل کو ایرانی اہداف پر حملے کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔ ہر حملے سے پہلے روس کو آگاہ کیا جاتا، تاکہ فوجی سطح پر ہم آہنگی برقرار رہے۔
لیکن اب شام میں صورتحال اسرائیل کے لیے بالکل بدل چکی ہے۔ اسد کو اپوزیشن نے ہٹا دیا ہے۔ شام کے صدر احمد الشرع ایک دانشمندانہ اور عملی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ وہ تمام گروہوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، ملک کی علاقائی سالمیت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بین الاقوامی طاقتوں کو مثبت اشارے دے رہے ہیں تاکہ شام پر عائد پابندیاں ختم کی جا سکیں۔
اس حوالے سے انہوں نے کافی کام کیا ہے۔ دوسری طرف خلیجی ممالک نے دمشق میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یورپی یونین نے بھی بینکنگ، توانائی اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں شام پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں۔
اب شامی حکومت روس کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے تاکہ ملک کو مستحکم اور معمول پر لایا جا سکے اور اس عمل میں ترکیہ ایک ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ 12 فروری کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے احمد الشرع کو فون کیا۔ اس گفتگو میں روس نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ شام کی سماجی و اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔
حال ہی میں جب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف انقرہ میں موجود تھے، تو یہ خبریں سامنے آئیں کہ شامی وزیر خارجہ شعیبانی نے خفیہ طور پر انقرہ کا دورہ کیا اور لاوروف سے ملاقات کی۔
روس کے لیے شام میں اپنی بحری اڈوں کا مستقبل ایک اہم مسئلہ ہے۔ 8 دسمبر کے بعد ایک روسی عہدیدار نے کہا کہ ’ہم شامیوں سے بات کرنا چاہتے ہیں، یہ ان کا فیصلہ ہے۔‘
کہا جا رہا ہے کہ شام محدود روسی فوجی موجودگی کا مخالف نہیں، شرط یہ ہے کہ ایسا سخت ضابطوں کے تحت ہو اور ملک کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہ ہو۔
اسرائیل شام میں بدلتی ہوئی صورتحال کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ اس نے گولان کی پہاڑیوں پر اپنا قبضہ مزید بڑھا دیا ہے۔ وہ شام کے تمام فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیل امریکہ پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ شام پر عائد پابندیاں ختم نہ کی جائیں۔ ساتھ ہی وہ ایس ڈی جی/پی کے کے نامی دہشت گرد گروہ کو کہہ رہا ہے کہ وہ ’ہتھیار نہ ڈالیں‘ تاکہ شام مزید تقسیم کا شکار ہو۔
اِس وقت اسرائیل دروز کمیونٹی کو بھی اشتعال دلا رہا ہے۔ نیتن یاہو کا یہ بیان کہ ’ہم شام میں موجود انتہا پسند اسلامی حکومت کو دروز کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے‘ اور فوج کو تیار کرنے کی ہدایت ایک خطرناک قدم ہے۔
اس کے جواب میں لبنانی دروز رہنما ولید جنبلاط کا انتباہ حوصلہ افزا ہے: ’شامیوں کو اسرائیل کی سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ اسرائیل انتشار پھیلا رہا ہے۔ میں شام جاؤں گا اور الشرع سے ملاقات کروں گا۔‘
اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود دمشق کی سیکیورٹی فورسز کو بعض دروز اکثریتی علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے، جو دروز کمیونٹی کے ساتھ ایک معاہدے کا حصہ ہے۔
ان تمام اقدامات کے پیچھے اسرائیل کا حتمی ہدف دمشق میں بغاوت کرانا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کامیاب ہوں گے، لیکن وہ ضرور کوشش کریں گے۔ جو لوگ حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اسرائیل کی پروپیگنڈا مشینری پوری طاقت سے الشرع حکومت کو بدنام کرنے اور اسے دہشت گردی سے جوڑنے میں مصروف ہے۔
اب واپس آتے ہیں اس پیش رفت کی طرف جس کا ذکر شروع میں کیا گیا تھا۔ اسرائیل ماسکو میں کیا تلاش کر رہا ہے؟ اسرائیلی میڈیا کے مطابق تل ابیب نے ترکیہ کے بجائے روس سے رابطہ کرنے کو ترجیح دی ہے، کیونکہ ترکیہ اس خطے میں سب سے طاقتور ملک بن چکا ہے۔ (یہ بھی قابلِ غور ہے کہ یہ دورہ اسی وقت ہوا جب ماسکو اور دمشق کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔)
اسرائیل کو تین بڑے مسائل کی فکر ہے: (1) ترکیہ اور شام کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات، (2) شامی فوج کی تربیت اور اسے فراہم کی جانے والی جدید ٹیکنالوجی، (3) شامی فضائی حدود کا کنٹرول۔
آئیے کچھ اور وجوہات بھی شامل کرتے ہیں۔ اسرائیل، ترکیہ کے ساتھ وہ نہیں کر سکتا جو وہ ایران کے ساتھ کرتا ہے— یعنی ترکیہ کو بدنام نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ترکیہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کرتا ہے۔
ترکیہ ایک بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت ہے۔ اس کی فوج ایک مضبوط ڈیٹرنٹ (روکنے والی قوت) ہے اور دنیا کی ان چند افواج میں شامل ہے جو جدید ٹیکنالوجی اور عملی جنگی تجربے کو کامیابی سے یکجا کر چکی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ، جن پر اسرائیل بھروسا کرتا ہے، ترکیہ اور صدر اردوان کا احترام کرتے ہیں۔
شام میں استحکام ترکیہ کے لیے قومی سلامتی کا معاملہ ہے— کیونکہ دہشت گردی اور مہاجرین جیسے خطرات براہِ راست ترکیہ کو متاثر کرتے ہیں۔ اسی لیے انقرہ شام میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
اسرائیل ترکیہ کے ساتھ براہِ راست تصادم سے خوفزدہ ہے۔ کچھ لوگ تو اسے ناگزیر سمجھ رہے ہیں۔ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ لیکن میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: میں نے سنا تھا کہ تل ابیب روس کے ساتھ ایک پرانے طرز کا معاہدہ چاہتا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کو ترکیہ سے بھی کچھ توقعات تھیں، لیکن اسے مثبت اشارہ نہیں ملا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ماسکو جا پہنچا۔
ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔
اپنے خیالات کا اظہار کریں!
یہاں پر کلک کرکے دن کی اہم خبریں ای میل کے ذریعے حاصل کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔
سبسکرائب کر کے آپ البائراک میڈیا گروپ کی ویب سائٹس سے ای میلز حاصل کرنے اور ہماری استعمال کی شرائط اور پرائیویسی کی پالیسی کو قبول کرنے سے اتفاق کرتے ہیں۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔