
اسرائیل کی جانب سے انسانی امداد کی ترسیل روکنے اور بجلی بند کرنے کے دو ہفتے بعد، غزہ کے مختلف علاقوں میں بغیر کسی وارننگ کے فضائی حملے کیے گئے، جن میں 300 سے زائد فلسطینی مارے گئے۔
اسرائیل نے غزہ پر شدید حملے شروع کردیے ہیں جن میں 300 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی ختم کر دی ہے۔
فضائی حملے غزہ کے مختلف علاقوں میں کیے گئے، جن میں شمالی غزہ، غزہ سٹی، دیر البلح، خان یونس اور رفح شامل ہیں۔
الجزیرہ کی ویڈیوز میں بچوں اور نومولو بچوں کو بھی زخمی اور جاں بحق ہوتے دکھایا گیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 310 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے فوج کو سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس نے یرغمالیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا اور تمام جنگ بندی تجاویز مسترد کر دی ہیں۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اسرائیل اب حماس کے خلاف مزید طاقت کے ساتھ کارروائی کرے گا۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ حملے اس لیے کروائے کیونکہ جنگ بندی میں توسیع کے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے فاکس نیوز کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو اسرائیل نے حملوں سے پہلے اعتماد میں لیا تھا۔
لیویٹ نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ پر حملوں سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور وائٹ ہاؤس سے مشاورت کی تھی۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے حماس، حوثیوں، ایران اور دیگر گروہوں کو سخت پیغام دیا ہے کہ اگر انہوں نے اسرائیل یا امریکہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، تو انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خطے میں مکمل تباہی مچ جائے گی اور مشرق وسطیٰ میں موجود تمام دہشت گرد گروپس حوثی، حزب اللہ، حماس ایران کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ اور خود ایران، صدر ٹرمپ کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیں، کیونکہ وہ قانون کی پاسداری کرنے والے لوگوں کے حق میں کھڑے ہونے سے نہیں گھبراتے۔‘
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر حملے جتنی دیر تک ضرورت ہو جاری رکھے گا۔
فوج نے کہا کہ حملوں کا ہدف حماس کے کمانڈر اور اس کا بنیادی انفراسٹرکچر تھا، لیکن ویڈیوز اور مقامی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے اور زخمی ہوئے ہیں۔
حماس کا ردعمل
حماس نے فضائی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل نے غیرمسلح شہریوں کے خلاف اپنی نسل کشی کی جنگ دوبارہ شروع کر دی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ نیتن یاہو اور اس کی انتہا پسند حکومت نے جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کی وجہ سے (اسرائیلی) قیدیوں کو انجام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
حماس نے ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ نیتن یاہو اور صیہونی قبضے کو معاہدہ توڑنے اور اس کی خلاف ورزی کا مکمل ذمہ دار ٹھہرائیں۔
تنظیم نے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے مطالبہ کیا کہ وہ ’اپنی ذمہ داری ادا کریں، ہمارے فلسطینی عوام کی بہادری سے جاری مزاحمت کی حمایت کریں اور غزہ پر مسلط کیے گئے ظالمانہ محاصرے کو ختم کرنے میں مدد کریں۔‘
نازک جنگ بندی
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی 19 جنوری کو نافذ ہوئی تھی اور اس میں تین مراحل شامل تھے۔پہلا مرحلہ، جو مارچ کے آغاز میں ختم ہوا، اس کے تحت حماس نے 33 اسرائیلی اور 5 تھائی یرغمالیوں کو رہا کیا، جبکہ اسرائیل نے تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں کو آزاد کیا۔
امریکہ کی حمایت سے اسرائیل پہلے مرحلے کے دورانیے کو بڑھانا چاہتا تھا، جبکہ حماس کا مطالبہ تھا کہ جنگ بندی کو دوسرے مرحلے میں داخل ہونا چاہیے۔
دوسرے مرحلے کا بنیادی خاکہ یہ ہے کہ تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں اسرائیل کو مکمل طور پر غزہ سے نکلنا ہوگا۔ تاہم اس کی تفصیلات پر ابھی تک اتفاق نہیں ہوا۔
اسرائیلی حکام کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتیں مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتیں، اسرائیلی افواج غزہ سے نہیں نکلیں گی۔
جنگ کے بعد غزہ کے انتظام کا منصوبہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں زیر بحث آنا تھا۔
تیسرے مرحلے میں ان اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کی واپسی شامل تھی جو ابھی تک غزہ میں موجود ہیں۔ اور بین الاقوامی نگرانی میں غزہ کے تین سے پانچ سالہ تعمیرِ نو کے منصوبے کا اعلان ہونا تھا۔
حماس کے قبضے میں فی الحال 59 اسرائیلی یرغمالی غزہ میں موجود ہیں۔ 3 مارچ کو اسرائیلی چینل نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ حکومت نے حماس کو 10 دن کی ڈیڈلائن دی تھی تاکہ باقی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے، ورنہ جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔
4 مارچ کو عرب لیگ نے مصر کے تجویز کردہ 53 ارب ڈالر کے پانچ سالہ منصوبے کی حمایت کی تھی، جو غزہ کی تعمیرِ نو کے ساتھ آبادی کی جبری بے دخلی کو روکنے پر مرکوز ہے۔
یہ عرب منصوبہ فروری میں صدر ٹرمپ کے اعلان کے جواب میں پیش کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے غزہ کو سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے اور اس کی آبادی کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کا منصوبہ دیا تھا۔ بین الاقوامی برادری نے اس تجویز کو ’نسل کشی‘ کے مترادف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
برطانیہ، فرانس، اٹلی اور جرمنی نے عرب لیگ کے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔
2 مارچ کو معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل مکمل طور پر روک دی اور پھر اعلان کیا کہ بجلی کی فراہمی بھی منقطع کر دی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے‘ کے مترادف قرار دیا، جو کہ بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم سمجھا جاتا ہے۔
ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔
اپنے خیالات کا اظہار کریں!