یہ گرفتاریاں پی ٹی آئی کی جانب سے اتوار کو سنگجانی میں جلسے کے ایک دن بعد سامنے آئیں
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اتوار کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سنگجانی میں جلسے کے ایک دن بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پارٹی کے تین سینیر رہنماوٴں بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت سمیت 11 رہنماوٴں کو گرفتار کرلیا۔
پیر کی رات 11 بجے تک پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، شیر افضل مروت اور وزیرستان کے قانون ساز زبیر خان اور وکیل شعیب شاہین کی گرفتاریوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
اس کے علاوہ ابتدائی طور پر یہ دعوے سامنےآئے تھے کہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو ’اغوا‘ کرلیا گیا ہے اور پی ٹی آئی رہنماوٴں کا ان سے رابطہ نہیں ہورہا ہے۔ تاہم آج صبح ان کے واپس پشاو پہنچنے کی خبریں وائرل ہوئیں۔ یاد رہے کہ اتوار کے جلسے میں علی امین گنڈا پور نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور صحافیوں کے خلاف متنازع تقریر کی تھی جس کے بعد ان کی بھی گرفتاری کا امکانات تھے۔
اسی دوران بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سے افسران نے گرفتار کیا۔ پیر کو قومی اسمبلی اجلاس کے بعد اسمبلی کی عمارت سے نکلتے ہی پولیس نے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیوں میں ڈالا۔
وکیل شعیب شاہین کو سیکٹر جی نائن میں ان کے دفتر سے اچانک چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ان کے دفتر کے عملے نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بھی تقریباً ایک درجن پولیس افسران اور سادہ لباس والوں نے حراست میں لے لیا۔
یاد رہے کہ پارلیمانی قوانین کے مطابق پولیس کو کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کرنے سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو آگاہ کرنا لازمی ہوتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایم این ایز کو گرفتار کرنے سے پہلے اسپیکر سے اجازت طلب کی تھی۔
پولیس حکام نے مقامی اخبار ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں اور رہنماؤں کے خلاف سنگجانی اور نون تھانوں میں تین مقدمات درج کیے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’احمد چٹھہ، اویس حیدر جکھڑ، سید شاہ احد علی شاہ، یوسف خٹک اور لطیف چترالی کو بھی گرفتار کیا گیا‘۔
زلفی بخاری نے مزید کہا کہ شاندانہ گلزار، عبداللطیف، حمید حسین، شفقت اعوان، علی محمد خان قومی اسمبلی کے اندر موجود تھے اور انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔‘
پی ٹی آئی رہنما زرتاج گل، عمر ایوب اور سیمابیہ طاہر کی گرفتاری کے امکانات ہیں۔ تاہم گزشتہ رات کئی رہنماوٴں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر پناہ لی۔
پولیس کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے کانسٹی ٹیوشن ایونیو کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت کے ایگزٹ پوائنٹس پر متعدد ٹیمیں تعینات کی گئی تھیں۔
پی ٹی آئی رہنماوٴں کو کیوں گرفتار کیا گیا؟
اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے تین رہنماؤں، بیرسٹر گوہر خان، شعیب شاہین اور شیر افضل مروت کو پیر کی رات گرفتار کیا گیا‘۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رہنماوٴں کو 8 ستمبر کو پی ٹی آئی کے جلسے میں نئے قانون، پرامن اسمبلی اور پبلک آرڈر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے‘۔
یاد رہے کہ چھ ستمبر کو قومی اسمبلی نے حکومت کی اجازت کے بغیر اسلام آباد میں کسی بھی مقصد کے لیے ریلی، احتجاج، دھرنا یا جمع ہونے پر 3 سال قید کی سزا کا متنازع بل منظور کیا تھا‘۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں یہ ’پرامن اجتماع اور امن عامہ ایکٹ 2024‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما دانیال چوہدری نے پیش کیا تھا۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ 9 مئی 2023 کے واقعات اور پارٹی کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پی ٹی آئی رہنماوٴں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے ایکس پر لکھا کہ ’حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کل کے جلسے کے بعد سے ڈپریشن کا شکار ہیں اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ کیا اس سب سے تحریک رُک جائے گی؟ کوئی عقل کو ہاتھ مارے۔ یہ وقت عمران خان کا ہے۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان پچھلے ایک سال سے جیل میں ہیں۔ انہیں کئی مقدمات کا سامنا ہے جن میں سے کچھ مقدمات ختم ہوگئے اور کچھ اب بھی زیر سماعت ہیں۔
یہ بھی یادر ہے کہ سابق وزیر اعظم نے اپنے دور اقتدار اور اس کے بعد پاک فوج کے خلاف بیان دیا تھا اور اپریل 2022 میں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد انہیں عہدے سے برطرف ہونا پڑا۔ انہوں نے اپنے برطرفی کا الزام اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا تھا تاہم پاک فوج کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔