فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد یحییٰ السنوار کو سیاسی بیورو کا نیا سربراہ مقرر کردیا۔
خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق حماس نے کہا کہ 31 جولائی کو تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد کمانڈر یحییٰ سنوار کو حماس کے پولیٹیکل بیورو کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
اسرائیل 61 سالہ یحییٰ سنوار کو 7 اکتوبر کے حملے کا ماسٹر مائنڈ مانتا ہے۔
یاد رہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا تھا جس میں گیارہ سو اسرائیلی ہلاک اور دو سو کے قریب لوگوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اس حملے کے بعد سے اسرائیل غزہ پر مسلسل بمباری کررہا ہے جس میں اب تک تقریباً 40,000 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں خواتین اور بچے ہیں۔ اور تقریباً 2.3 ملین آبادی بے گھر ہوگئی ہے اور بڑے پیمانے پر غذائی قلت اور صحت کی انتہائی خراب صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
اسرائیلی جیل میں 22 سال قید میں رہنے سے حماس کے سربراہ تک کا سفر
یحییٰ سنوار 2017 سے غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حماس کی قیادت نے متفقہ طور پر یحییٰ سنوار کو منتخب کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل نے ہنیہ کو قتل کیا اب انہیں سنوار اور ملٹری لیڈرشپ سے نمٹنا ہوگا‘۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسماعیل ہنیہ کی جگہ دہشت گرد یحییٰ سنوار کو حماس کا نیا لیڈر مقرر کرنا ایک اور اہم وجہ ہے کہ اس تنظیم کو تیزی سے صفحہ ہستی سے ختم کردیا جائے۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان ریئر ایڈم ڈینیئل ہاگری نے سعودی نیوز چینل العربیہ کو بتایا کہ ’یحییٰ سنوار ایک دہشت گرد ہے، انہیں جلد ہلاک کردیا جائے گا۔‘
اکتوبر میں ہونے والے حملوں کے بعد سے یحییٰ سنوار کو میڈیا میں نہیں دیکھا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ سنوار غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور اس ڈر سے وہ کسی سے رابطہ نہیں کر رہے کہ کہیں ان کی لوکیشن کے بارے میں اسرائیل کو معلوم نہ ہو جائے۔
یحییٰ سنوار 1962 میں غزہ کے شہر خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہیں ’ابو ابراہیم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
1980 کی دہائی کے آخر میں یحییٰ سنوار، جب ان کی عمر صرف پچیس سال تھی، نے حماس کی سیکیورٹی سروس کی بنیاد رکھی جسے مجد کہا جاتا ہے.
انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسرائیلی جیل میں گزارا ہے۔ وہ سنہ 1988 سے 2011 تک 22 سال تک قید میں رہے۔ جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی معاملات اور ملکی سیاست کے بارے میں معلومات حاصل کی۔
2011 میں سنوار کو اسرائیل نے ایک معاہدے کے بعد رہا کر دیا تھا جس میں 1028 فلسطینی اور اسرائیلی عرب قیدی رہا ہوئے تھے اور اس کے بدلے میں اکیلے اسرائیلی یرغمالی فوجی جیلاد شالیت کی رہائی ممکن ہوئی۔ جسے حماس نے پانچ سال سے زائد عرصے تک قید رکھا ہوا تھا۔
امریکا نے 61 سالہ یحییٰ سنوار کو ’انٹرنیشنل دہشت گردوں‘ کی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے۔