سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر قتل کا خدشہ: کیا کوئی انہیں بلیک میل کر رہا ہے؟

16:3121/08/2024, الأربعاء
general.g21/08/2024, الأربعاء
بیلانت اوراکوغلو

سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے قتل کے خدشات کو سمجھنے کے لیے ہمیں 3 نومبر 2020 کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات اور 7 فروری 2020 کے آس پاس کے ہونے والے واقعات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جب ریاستی سطح پر انتخابی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں ’ڈیل آف سنچری‘ نامی منصوبہ پیش کیا۔ جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کو حل کرنا تھا۔ یہ منصوبہ دو اہم وجوہات کی بنا پر حقیقی معاہدہ نہیں تھا، پہلی وجہ

خبروں کی فہرست

سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کے قتل کے خدشات کو سمجھنے کے لیے ہمیں 3 نومبر 2020 کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات اور 7 فروری 2020 کے آس پاس کے ہونے والے واقعات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جب ریاستی سطح پر انتخابی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں ’ڈیل آف سنچری‘ نامی منصوبہ پیش کیا۔ جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کو حل کرنا تھا۔ یہ منصوبہ دو اہم وجوہات کی بنا پر حقیقی معاہدہ نہیں تھا، پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ فلسطین سے مشاورت کے بغیر متعارف کرایا گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ یہ بنیادی طور پر فلسطینی سرزمین کو ضم کرنے کا منصوبہ تھا، جس میں امریکی مدد کے ذریعے ان علاقوں کو اسرائیل کے قبضے میں لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین اور عمان جیسے کچھ عرب ممالک نے بغیر کسی شرط کے اس منصوبے کو مکمل سپورٹ کیا۔ اس کے برعکس ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس منصوبے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یروشلم مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ اسرائیل کو یروشلم دینے کا منصوبہ ناقابل قبول ہے، اس سے امن اور مسائل کو حل میں مدد نہیں ملے گی بلکہ فلسطین اور یروشلم میں نئی تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ اس منصوبے کا اصل مقصد فلسطین کے حقوق کو نقصان پہنچانا اور اسرائیلی قبضے کو جائز ظاہر کرنا ہے۔‘


’ڈیل آف سنچری‘ نامی منصوبہ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر نے تیار کیا تھا جو ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے حوالے کیا گیا۔ صدارتی الیکشن میں دوبارہ حصہ لینے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے لیے ایسی حکمت عملی اپنائی جو کہ نیٹو ممالک کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ’قاتلانہ حملے‘ یا ’ٹارگٹ کلنگ‘ جیسے ہتھکنڈوں سے ملتی جلتی تھی۔ یہ طریقہ پہلے اسامہ بن لادن اور ابوبکر البغدادی جیسے لوگوں کے قتل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں اسے قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے خلاف استعمال کیا گیا۔


ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے الگ الگ مواقع پر ریاض میں شہزادہ محمد بن سلمان سے دو بار ملاقات کی تھی۔ پہلی ملاقات میں انہوں نے 50 سعودی شہزادوں کی فہرست پر تبادلہ خیال کیا جو سی آئی اے نے بنائی تھی۔ اس فہرست میں ممکنہ طور پر ایسے افراد شامل تھے جو امریکہ کے لیے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسری ملاقات میں انہوں نے جمال خاشقجی اور قاسم سلیمانی جیسے ناموں کی فہرست پر تبادلہ خیال کیا گیا جنہیں پہلے ہی ٹارگٹ کرکے قتل کیا جاچکا تھا، یہ فہرست بھی سی آئی اے نے تیار کی تھی۔


سی آئی اے، موساد اور سعودی انٹیلی جنس کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کی گئی ٹارگٹ کرکے قتل کیے جانے والے لوگوں کی فہرست مبینہ طور پر مشرقی بحیرہ روم میں نیتن یاہو اور خود شہزادہ سلمان کے حوالے کی گئی تھی۔


سی آئی اے کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فہرست موساد اور جی آئی پی کی مدد سے بنائی گئی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جمال خاشقجی سمیت فہرست میں شامل افراد کو امریکی کمپنی کی طرف سے تیار اور فروخت کیے گئے ’پیگاسس وائرس‘ نامی پروگرام کا استعمال کرتے ہوئے ٹریک کیا گیا تھا۔ اس فہرست میں وہ اہم رہنما بھی شامل ہیں جو ’ڈیل آف سنچری‘ کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بائیڈن اور نیتن یاہو نے سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کو عرب لیگ کے رہنماؤں کو ’ڈیل آف سنچری‘ کو سپورٹ کرنے پر رضامندی کا کام سونپا۔


اگرچہ شہزادہ سلمان نے مشورہ دیا ہے کہ اسرائیل اور عرب لیگ کے ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کی وجہ سے انہیں قتل کا خدشہ ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ خوف امریکہ یا اسرائیل کی خفیہ بلیک میلنگ کی وجہ سے ہے


امریکی میڈیا کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی کانگریس کے ارکان کو بتایا کہ ’ڈیل آف سنچری‘ اور اسرائیل اور عرب لیگ ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کی وجہ سے ان کی جان خطرے میں ہے۔


سعودی ولی عہد نے غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی وجہ سے عرب شہریوں کے اسرائیل کے خلاف شدید غصے پر بھی بات کی، جس کے نتیجے میں 40,000 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک واضح ٹائم لائن طے کرنے اور ٹھوس اقدامات کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ سعودی عوام اور مشرق وسطیٰ کے ہر فرد کے لیے بہت اہم ہے۔ اگر میں خطے کے سب سے بڑے مسئلے کو نظر انداز کروں تو میری ساکھ متاثر ہو گی‘۔


ایک سینئر سعودی اہلکار نے پولیٹیکو سے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر سعودی عرب کو اقتصادی، تکنیکی اور فوجی فائدے نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں سلامتی اور استحکام حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ تیل پر صدر بائیڈن کے ساتھ حالیہ اختلافات اور امریکہ کی طرف سے ممکنہ دھمکیوں اور بلیک میل کے امکانات بتاتے ہیں کہ شہزاد محمد بن سلمان بھی امریکہ سے اپنی سیکیورٹی کی گارنٹی مانگ رہے ہیں۔


#Israel-Gaza war
#Assassination
#Saudiarabia