ینی شفق انگلش

ٹرمپ، روس اور یوکرین: پس پردہ کیا چل رہا ہے؟

09:123/03/2025, پیر
جنرل3/03/2025, پیر
یوسف دنچ

جیسے ہی ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، ان کی خارجہ پالیسی سے متعلق انداز بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہ اسرائیل اور اس کے قریبی اتحادیوں کے علاوہ ان تمام لوگوں کو نظر انداز کررہے ہیں جو بائیڈں کے ساتھ کام کرچکے ہیں خاص طور پر وہ لوگ جو یوکرین-روس جنگ میں شامل تھے۔ مثال کے طور پر پولینڈ کے صدر کو دیکھ لیں، جو واحد یورپی رہنما تھے جنہوں نے نیٹو اور امریکہ کو اعتماد میں لینے کے لیے اپنے ملک کے دفاعی اخراجات بڑھانے کا وعدہ کیا۔ ٹرمپ نے انہیں ملاقات کے لیے طویل انتظار کروایا اور جب ملاقات ہوئی تو صرف دس منٹ تک جاری

خبروں کی فہرست

جیسے ہی ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، ان کی خارجہ پالیسی سے متعلق انداز بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہ اسرائیل اور اس کے قریبی اتحادیوں کے علاوہ ان تمام لوگوں کو نظر انداز کررہے ہیں جو بائیڈں کے ساتھ کام کرچکے ہیں خاص طور پر وہ لوگ جو یوکرین-روس جنگ میں شامل تھے۔

مثال کے طور پر پولینڈ کے صدر کو دیکھ لیں، جو واحد یورپی رہنما تھے جنہوں نے نیٹو اور امریکہ کو اعتماد میں لینے کے لیے اپنے ملک کے دفاعی اخراجات بڑھانے کا وعدہ کیا۔ ٹرمپ نے انہیں ملاقات کے لیے طویل انتظار کروایا اور جب ملاقات ہوئی تو صرف دس منٹ تک جاری رہی۔

مجھے لگتا ہے کہ ایلون مسک بھی یورپ کے سیاسی منظرنامے کو بدلنے میں اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اگر امریکہ یورپ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو اس کہانی کے کئی ممکنہ رخ ہو سکتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں، یوکرین-روس جنگ ختم کرنے کی بات چیت کا انداز بھی بدل رہا ہے۔ اب یوکرین مذاکرات کی میز پر نہیں بلکہ خود ایک شکار بن چکا ہے۔

برطانیہ نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کی یوکرین کے قدرتی وسائل پر نظریں ہیں۔ جب 2003 میں عراق کے وسائل پر قبضہ کرلیا گیا تھا، تو برطانیہ نے بھی اپنا حصہ لیا تھا۔ لیکن ٹرمپ یوکرین میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ میرے خیال میں تقریباً سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔ نایاب معدنیات سے لے کر اس کے بندرگاہ تک۔

لیکن اس بڑے منصوبے کے پیچھے ایک اور، کہیں زیادہ اہم چیز چھپی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس پر بات کریں، آئیے نسبتاً کم اہم مگر قیمتی چیز پر نظر ڈالیں۔ یہ کہاں ہے؟ یہ سمندر کے نیچے موجود ہے۔

میں جنگ کے آغاز سے ہی اپنے مؤقف پر قائم ہوں کہ یہ تنازع بحیرہ اسود میں یوکرین کے توانائی کے ذخائر کے بارے میں ہے۔

ترکیہ نے جب بحیرہ اسود میں توانائی کے ذخائر دریافت کیے اور ان کی ترقی پر کام شروع کیا، تو اس خطے کی اسٹریٹجک اہمیت مزید بڑھ گئی تھی۔ ترکیہ کے بعد یوکرین کے پاس بحیرہ اسود میں سب سے بڑا خصوصی اقتصادی زون ہے۔ رومانیہ پہلے ہی اپنی سمندری حدود میں توانائی کے ذخائر کی تصدیق کر چکا ہے۔

ترکیہ نے اپنی متوازن پالیسی، توانائی کے شعبے میں مہارت، انجینئرنگ صلاحیتوں، اور فوجی قوت کی بدولت بحیرہ اسود کے دیگر ممالک کے لیے ایک قابلِ اعتماد پارٹنر کے طور پر خود کو منوایا ہے اور امکانات کو حقیقت میں بدل رہا ہے۔

بالکل اسی طرح جیسے آج صومالیہ میں ہو رہا ہے، یوکرین بھی ترکیہ کے ساتھ شراکت داری میں اپنے وسائل تلاش کر سکتا تھا۔ اگر توانائی کے وسیع امکانات رکھنے والا یوکرین یورپی یونین کا حصہ بن جاتا ہے، تو یورپ کا روسی توانائی پر انحصار ختم ہو سکتا تھا۔ لیکن یہی امکان روس اور امریکہ دونوں کے لیے خطرہ تھا—کیونکہ امریکا بھی یورپ کے توانائی کے انحصار سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

اسی طرح یوکرین تباہ ہوا۔ چاہے روس صرف کریمیا پر قابض کرے، تب بھی یوکرین کی خصوصی اقتصادی زون ختم ہورہا ہے۔ یہی پیوٹن کی جیت ہے—وہ توانائی کے ذخائر کو نہیں چھیڑے گا، لیکن یورپ کو اپنے وسائل کا محتاج بنائے رکھے گا۔ اب فرض کریں کہ یوکرین اپنی اقتصادی حدود پر مکمل کنٹرول برقرار رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں، اس کے توانائی کے ذخائر ٹرمپ کے لیے ’نسبتاً کم اہم مگر قیمتی چیز‘ بن جائیں گے۔

کسی کو نہیں معلوم کہ روس اور امریکہ پس پردہ کیا ڈیلنگ کر رہے ہیں، لیکن یورپ کے لیے حالات بہت نازک ہیں۔ البتہ، جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، وہ ترکیہ ہے۔ اگر امریکہ کے مطالبات وہی ہیں جو برطانیہ نے لیک کیے ہیں، تو روس یقیناً شدید ناراض ہوگا۔ اور شاید زیلنسکی کے گرد کھینچی گئی یہ حفاظتی لکیر درحقیقت کسی بڑے کھیل کا حصہ ہو سکتی ہے۔

اگر امریکہ یوکرین کی بندرگاہوں پر قبضہ کر لیتا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب سے بڑا انعام، جو ان تمام معاملات کے پیچھے چھپا ہے، ’مونٹرو کنونشن‘ ہے۔ اگر یوکرین کی بندرگاہیں امریکی کنٹرول میں چلی جاتی ہیں، تو ان کی قانونی حیثیت تبدیل ہو سکتی ہے۔

اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی جنگی بحری جہاز بحیرہ اسود میں داخل ہو سکتے ہیں، تو اس کا نتیجہ عدم استحکام ہوگا۔

بحیرہ اسود میں عدم استحکام نہ صرف ترکیہ کی توانائی کی خودمختاری بلکہ اس کے توانائی مرکز (Energy Hub) بننے کے امکانات کے لیے بھی خطرہ ہے۔

ایسی صورتحال میں ’مونٹرو کنونشن‘ ترکیہ کے لیے ایک انتہائی اہم جغرافیائی و اقتصادی ہتھیار بن جاتا ہے۔

اگر روس یوکرین-روس امن مذاکرات میں بڑے منظرنامے کو نظر انداز کرتا ہے، تو ترکیہ کو عدم استحکام کے نقصانات سے بچنے کے لیے اپنی حکمت عملی خود ترتیب دینی پڑے گی۔

شاید یہی وجہ تھی کہ گزشتہ روز لاوروف ترکیہ کے دورے پر آئے۔ اب غزہ بحران کے علاوہ، ترکیہ ٹرمپ کے ساتھ ممکنہ تعلقات کی طرف بڑھ رہا ہے۔

یہ بالکل سائنس فکشن فلموں میں خلائی مخلوق سے پہلی ملاقات جیسا ہے جس میں دو امکانات ہوتے ہیں: ’ہیلو، زمینی باشندوں! ہم امن کے ساتھ آئے ہیں۔‘ یا پھر ایک طاقتور دھمکی دی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح، ٹرمپ ایک ’اجنبی‘ کی طرح ہماری دنیا میں داخل ہو رہے ہیں۔ اب آگے کیا ہوگا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ترکیہ اپنی اندرونی طاقت اور اتحاد کو کس طرح برقرار رکھتا ہے۔



یہ بھی پڑھیں:


#روس یوکرین جنگ
#امریکا
#یورپ
#ترکیہ
تبصرے

ہیلو، ہماری سائٹ پر آپ جو کمنٹس شیئر کرتے ہیں وہ دوسرے صارفین کے لیے بھی اہم ہیں۔ براہ کرم دوسرے صارفین اور مختلف رائے کا احترام کریں۔ بدتمیز، نامناسب، امتیازی یا تضحیک آمیز زبان استعمال نہ کریں۔

ابھی تک کوئی کمنٹ نہیں ہے۔

اپنے خیالات کا اظہار کریں!

یہاں پر کلک کرکے دن کی اہم خبریں ای میل کے ذریعے حاصل کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے آپ البائراک میڈیا گروپ کی ویب سائٹس سے ای میلز حاصل کرنے اور ہماری استعمال کی شرائط اور پرائیویسی کی پالیسی کو قبول کرنے سے اتفاق کرتے ہیں۔