ایڈیٹنگ:

اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہرے، اب تک ہم کیا جانتے ہیں؟

11:165/09/2024, Perşembe
جی: 5/09/2024, Perşembe
ویب ڈیسک
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کیمیکل والا پانی بھی پھینکا اور کئی کو گرفتار کیا۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کیمیکل والا پانی بھی پھینکا اور کئی کو گرفتار کیا۔

یکم ستمبر کو حماس کے زیر حراست 6 یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد پورے اسرائیل میں وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف احتجاج شدت اختیار کرگئے ہیں اور ساتھ ہی ملک بھر میں ہڑتال کی کال دی ہے۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کیمیکل والا پانی بھی پھینکا اور کئی کو گرفتار کیا۔

اسرائیل ملٹری نے بیان جاری کیا کہ ان کے فوجیوں کے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے حماس نے یرغمالیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ یاد رہے کہ پچھلے روز ملک بھر میں ہونے والی ہڑتال 7 اکتوبر کے بعد پہلی ہڑتال تھی۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے پریس کانفرنس میں ہلاک یرغمالیوں کی فیملیز سے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ میں 24 گھنٹے کام کر رہا ہوں، باقی 101 یرغمالیوں کو اسرائیل واپس لانے کے لیے ہر ممکن راستے تلاش کر رہا ہوں۔‘

دوسری جانب فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے
کیا کہ اگر اسرائیل نے اپنے فوجی حملے جاری رکھے تو غزہ میں اسرائیلی یرغمالی ’کفن میں لپٹے ہوئے واپس بھیجیں گے‘۔

قسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے بیان میں کہا کہ ’نیتن یاہو کا جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کرنے کے بجائے دباوٴ کے ذریعے قیدیوں کو آزاد کرنے پر اصرار کا مطلب ہے کہ بقیہ یرغمالی کفن میں لپٹے ہوئے واپس جائیں گے۔ یرغمالیوں کے اہل خانہ کو انتخاب کرنا ہوگا کہ وہ اپنے پیاروں کو مردہ دیکھنا چاہتے ہیں یا زندہ‘

اس میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو اور ان کی فوج قیدیوں کی موت ذمہ دار ہے کیونکہ انہوں نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالی تھی۔


حماس کے پاس اب تک کتنے یرغمالی ہیں؟


اسرائیلی فوجیوں کو جن چھ یرغمایوں کی لاشیں ملیں ان کی کارمل گاٹ، ایڈن یورشالمی، ہرش گولڈبرگ پولن، الیگزینڈر لوبانو، آلموگ ساروسی اور ماسٹر سجتاوری دانینو کے نام سے ہوئی ہے۔

ترکیہ کے نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل کے حملے کے بعد حماس نے 250 سے زیادہ اسرائیلی شہریوں کو قید کرلیا تھا جن میں کچھ وقت کی جنگ بندی کے دوران حماس نے دوسو فلسطینی قیدیوں کے بدلے 117 اسرائیلی یرغمالی رہا کیے۔ اس کے علاوہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ 97 یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں اور کچھ کی موت ہوچکی ہے۔


مظاہرین کا کیا مطالبہ ہے؟


کئی مظاہرین نے الزام لگایا کہ نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے ارکان جان بوجھ کر معاہدے پر اتفاق نہیں کررہے ہیں۔

مظاہرین نے کہا کہ نیتن یاہو اپنے سیاسی مفاد کے لیے حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

مظاہرین کا نیتن یاہو سے مطالبہ ہے کہ جلد از جلد جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہو تاکہ تمام اسرائیلی یرغمالی واپس آجائیں۔

پچھلے سال نومبر میں قطر میں ہونے والے مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی تھی۔ اس پیش رفت کے تحت ثالث ممالک 7 دنوں کے لیے عارضی جنگ بندی کروانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

اُس وقت کی جنگ بندی کے دوران حماس نے 210 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 105 اسرائیلیوں کو رہا کیا تھا۔

اس بار احتجاج کرنے والے شہریوں کو امید ہے کہ ان مظاہروں سے دوبارہ جنگ بندی ممکن ہوسکے گی۔


کیا ان مظاہروں میں فلسطین کے حق میں کوئی مطالبہ شامل ہے؟


نہیں، زیادہ تر مظاہرین کی توجہ یرغمالیوں کی رہائی ہے۔

اسرائیلی تجزیہ کار نمرود فلاشن برگ نے کہا کہ یرغمالیوں کی واپسی کا معاملہ اہم ہے۔معاہدے کے ذریعے تنازع کو ختم کرنے کی بات نہ ہونے کے برابر لکھی ہے۔ مظاہرین میں سے صرف کچھ لوگوں کی طرف تنازعے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن زیادہ تر لوگ یرغمالیوں کی رہائی کی بات کررہے ہیں۔


#اسرائیل حماس جنگ
#حماس
#اسرائیل
#غزہ

دن کی اہم ترین خبریں بذریعہ ای میل حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے، آپ البائیراک میڈیا گروپ کی سائٹس سے الیکٹرانک مواصلات کی اجازت دیتے ہیں اور استعمال کی شرائط اور رازداری کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔