ان دھماکوں کے بارے میں ہم تک ہم کیا جانتے ہیں؟
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ شہر بیروت میں حزب اللہ ارکان زیر استعمال واکی ٹاکی دھماکے سے پھٹی تھیں۔ جنوبی اور مشرقی لبنان میں بھی ایسے ہی دھماکوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
ایک فوٹیج میں دیکھا گیا کہ ساوٴتھ بیروت میں حزب اللہ کے ایک ہلاک رکن کی نماز جنازہ کے دوران دھماکہ ہوا جس کے بعد لوگ اپنی حفاظت کے لیے بھاگ رہے ہیں۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ دھماکوں کی دوسری لہر میں واکی ٹاکی کے علاوہ موبائل فون، لیپ ٹاپ اور یہاں تک کہ سولر انرجی سسٹم سے چلنے والے آلات بھی پھٹے تھے۔
اطلاعات کے مطابق کئی کاریں کے اندر بھی دھماکے ہوئے، لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس کے اندر موجود کسی چیز میں دھماکہ ہوا یا کوئی اور وجہ تھی۔
لبنان کی وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل نے اس بار واکی ٹاکی میں دھماکے کیے ہیں جس کے نتیجے میں 20 افراد ہلاک اور 450 سے زیادہ زخمی ہوئے۔‘
اسرائیلی ڈفنس منسٹر نے کل ہی ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی جنگ دوسرے مرحلے میں دخل ہوچکی ہے پہلے ان کی فوج اور وسائل کا رخ جنوب تھا یعنی غزہ، اب وہ شمال کی جانب بڑھ رہے ہیں یعنی لبنان کی طرف۔
واکی ٹاکی ڈیوائسز کس ملک کی تھیں؟
واکی ٹاکی ایک چھوٹی ریڈیو وائر لیس ڈیوائس جو عام طور پر آج بھی پولیس یا سیکیورٹی ادارے استعمال کرتے ہیں۔ مخصوص ریڈیو فریکیونسی پر آواز کے ذریعے پیغام بھیج سکتے ہیں یا ریسیو کرسکتے ہیں۔
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے دھماکوں کے بعد تباہ شدہ واکی ٹاکی ڈیوائسز کی تصاویر گردش کررہی ہیں جس پر آئی کوم کا لوگو اور میڈ ان جاپان واضح طور پر دیکھا گیا۔ جس کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ واکی ٹاکیز جاپانی کمپنیز کی تیار کردہ تھیں۔
اسرائیل لبنان کو ٹارگٹ کیوں کررہا ہے؟
ماہرین کا خیال ہے کہ مشرقی وسطیٰ کی جنگ پر اسرائیل کا مستقبل کا پلان واضح نہیں ہے لیکن یہ حملے کئی برسوں سے اسرائیل کے حزب اللہ اور لبنان تنازعات کی وجہ ہوسکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے ان حملوں کا الزام اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر عائد کیا ہے کہ وہ اپنی سیکورٹی کی ناکامیوں اور کرپشن کے مقدمے سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف علاقوں میں کشیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
اب کیا ہوگا؟
الجزیرہ کے نامہ نگار عمران خان نے کہا کہ ’اسرائیل کے اس حملے کو لبنان میں ایک دہشت گرد حملے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان حملوں کے بعد لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔‘
’اسرائیل حزب اللہ اور معاشرے میں انتشار پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا، اسرائیل کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ اسرائیل کا یہی مقصد تھا کہ وہ کنفیوژن پیدا کریں اور وہ شاید تیسرے مرحلے کی تیاری کررہے ہوں۔ ہمیں انتظار کرنا ہوگا کہ آگے کیا ہوتا کیونکہ یہ صورتحال یہاں ختم نہیں ہونے والی۔‘
دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیل پر زور دیا گیا کہ وہ ایک سال کے اندر فلسطینی علاقوں پر اپنا غیر قانون قبضہ ختم کرے۔
یاد رہے کہ مزاحمتی تنظیم حماس نے پچھلے سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیل 1139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور حماس نے کئی اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ جس کے بعد اسرائیل غزہ میں حماس کے خاتمے کے لیے مسلسل بمباری کررہا ہے۔ تب سے لے کر اب تک کم از کم 41 ہزار 272 افراد ہلاک اور 95 ہزار 551 زخمی ہو چکے ہیں۔