ایڈیٹنگ:

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید فوجی تحویل میں، کورٹ مارشل کا عمل شروع، کیا الزامات ہیں؟

15:0512/08/2024, Pazartesi
جی: 13/08/2024, Salı
ویب ڈیسک
سابق انٹیلی جنس سربراہ فیض حمید
سابق انٹیلی جنس سربراہ فیض حمید

پاک فوج نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے کر ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی ہے۔


پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیم ٹاپ سٹی کے معاملے میں مداخلت سمیت پاکستان آرمی ایکٹ کی دیگر خلاف ورزیوں پر آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔


ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی سابق انٹیلی جنس چیف کے خلاف کورٹ مارشل شروع کیا گیا ہو۔


پاک فوج کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور انہیں فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ انکوائری پاک فوج نے فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتا لگانے کے لیے کی۔


آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی بہت سی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں۔



’فیض حمید پر لگے الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں‘


پاک فوج نے اپریل میں فیض حمید کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔


میں کہا گیا کہ یہ کمیٹی فوج نے اس لیے تشکیل دی تاکہ ادارے میں ایسے افسران کا احتساب کیا جائے اور کمیٹی کی قیادت حاضر سروس میجر جنرل کریں گے۔

میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کمیٹی سپریم کورٹ اور وزارت دفاع کی ہدایات کی روشنی میں تشکیل دی گئی تھی۔


14 نومبر کو جاری کردہ اپنے تحریری حکم میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف ’انتہائی سنگین نوعیت‘ کے الزامات کو ’نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ اگر یہ سچ ثابت ہوئے تو ملکی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔


تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں، اور اگر درست ہیں تو وفاقی حکومت، مسلح افواج، آئی ایس آئی اور پاکستان رینجرز کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے ان الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘۔


ٹاپ سٹی کیس کیا ہے؟


ایک پرائیویٹ ہاؤسنگ اسکیم ’ٹاپ سٹی‘ کی انتظامیہ نے سابق آئی ایس آئی چیف کے خلاف سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فیض حمید نے ہاوٴسنگ اسکیم کے مالک معیز خان کے دفاتر اور رہائش گاہ پر چھاپہ مارنے کا منصوبہ بنایا تھا۔


نومبر 2023 میں سپریم کورٹ نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو ہدایت کی کہ وہ سابق انٹیلی جنس چیف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف شکایات وزارت دفاع سمیت متعلقہ حکام سے رابطہ کریں۔


میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ ’تشکیل دی گئی انکوائری کمیٹی اپنے نتائج کی بنیاد پر ایک رپورٹ بنائے گی اور اسے متعلقہ حکام کو پیش کرے گی۔


مارچ 2023 میں اُس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اعلان کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور ان کے بھائی کے خلاف مبینہ کرپشن اور اپنے وسائل سے زیادہ دولت جمع کرنے کے الزام میں تحقیقات جاری ہیں۔


فیض حمید پر کیا الزامات عائد کیے گئے؟


بی بی سی اردو کے مطابق نومبر 2023 میں اسلام آباد میں واقع ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز احمد خان نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست دائر کی جس میں فیض حمید پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا۔


درخواست میں کہا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ مقدمے کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور اس دوران ان کے گھر سے سونا، ہیرے، اور نقدی سمیت متعدد قیمتی اشیا قبضے میں لی گئی تھیں۔


درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معیز خان کے ایک رشتہ دار کے ذریعے ان سے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے بھی رابطہ کیا۔


درخواست گزار کا دعویٰ تھا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا چیزیں واپس کرنے کی پیشکش کی تھی۔


کنور معیز نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر (ر) نعیم فخر اور بریگیڈیئر (ر) غفار نے انہیں چار کروڑ روپے نقد ادا کرنے اور نجی چینل ’آپ ٹی وی‘ کو سپانسر کرنے پر بھی مجبور کیا۔


درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق اہلکار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔


فیض حمید کی ریٹائرمنٹ اور متنازع ماضی


سابق آئی ایس آئی چیف پچھلی ایک دہائی سے ملک کے سیاسی منظر نامے میں کئی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔


جنرل حمید کا نام سب سے پہلے لوگوں کی نظروں میں اس وقت آیا جب انہوں نے نومبر 2017 میں ایک معاہدے کے ذریعے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے فیض آباد دھرنے کو ختم کرنے میں مدد کی۔


اس واقعے کے ازخود نوٹس میں سپریم کورٹ نے فروری 2019 میں فیصلہ دیا تھا کہ آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کو اپنے متعلقہ مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔


جنرل (ر) فیض حمید کو جون 2019 میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ ڈان اخبار نے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور نومبر 2022 میں اپنا استعفیٰ فوج کے اعلیٰ حکام کو بھیج دیا تھا۔


نومبر 2022 میں جنرل فیض حمید ان 6 سینئر ترین جرنیلوں میں شامل تھے جن کا نام جی ایچ کیو نے 2 اعلیٰ ترین فوجی عہدوں کے لیے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔


بہاولپور کور کمانڈر کا چارج سنبھالنے سے پہلے جنرل فیض حمید پشاور میں کور کمانڈر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔


نواز شریف اور مریم نواز نے الزام لگایا کہ فیض حمید نے ہی ان کی سزاؤں میں اہم کردار ادا کیا اور وہ پی ٹی آئی ​​حکومت کی حمایتی تھے۔












#Faiz Hameed
#ISI
#Pakistan
#Pak Army

دن کی اہم ترین خبریں بذریعہ ای میل حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے، آپ البائیراک میڈیا گروپ کی سائٹس سے الیکٹرانک مواصلات کی اجازت دیتے ہیں اور استعمال کی شرائط اور رازداری کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔