ایڈیٹنگ:

بلوچستان دہشت گرد حملے: ’عوام اور ریاست کے درمیان عدم اعتماد کا فائدہ عسکریت پسند اٹھا رہے ہیں‘

اقرا حسین
13:1727/08/2024, Salı
جی: 28/08/2024, Çarşamba
ویب ڈیسک
اک فوج کا دعویٰ ہے کہ جوابی کارروائیوں میں 21 دہشت گرد اور 14 سیکیورٹی اہلکار ہلاک  ہوئے۔
اک فوج کا دعویٰ ہے کہ جوابی کارروائیوں میں 21 دہشت گرد اور 14 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔‘


انہوں نے اتحادی جماعتوں کے رہنماوٴں کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ یہاں ملک کو کمزور کرنے کے لیے ایک منظم دہشت گردی ہورہی ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ ’یہ شرپسند معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں۔ اگر یہ بہادر ہیں تو اپنی بزدلانہ کاروائیوں کے بعد بھاگ نہیں جائیں بلکہ رک جائیں اور سکیورٹی فورسز کا مقابلہ کریں۔‘


وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’ یہ ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ دیکھتے ہیں اور پھر انہی پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ یہ سکیورٹی فورسز کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔


وہ کہتے ہیں کہ ’بعض لوگ مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور یہ بھی تاثر دیتے ہیں کہ میں مذاکرات کا حامی نہیں ہوں۔ ہم مذاکرات کس سے کریں کیونکہ یہ تو صرف بندوق کے منہ سے بات کررہے ہیں اور دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے۔‘


سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’جو بھی مذاکرات کرنا چاہتا ہے وہ اسلحہ پھینک دے تو ایسے لوگوں کے لیے مذاکرات کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں لیکن ہم دہشت گردی پر خاموش تماشائی نہیں بنیں گے اور اس کے خلاف جو بھی اقدامات کرنے پڑے وہ ہم کریں گے۔‘


یاد رہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران متعدد دہشت گرد حملوں میں 70 افراد قتل ہوئے جبکہ پاک فوج کا دعویٰ ہے کہ جوابی کارروائیوں میں 21 دہشت گرد اور 14 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔


بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات نئے نہیں ہیں لیکن گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران ان واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔


پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی
کے مطابق بلوچستان میں پچھلے ایک سال میں 170 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 151 عام شہریوں اور 114 سیکیورٹی اہلکار اور 20 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

البتہ پچھلے روز ہونے والے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بلوچ عسکریت پسندوں نے ریاست اور سیکورٹی فورسز کے خلاف اپنی پرتشدد مہم تیز کر دی ہے۔


بلوچستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے مسائل کا شکار ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں خاص طور پر پاک فوج کے ایک آپریشن میں بلوچ قوم پرست رہنما اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد کئی مسلح علیحدگی پسند گروہ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔


ان علیحدگی پسند گروہوں نے سیکورٹی فورسز، چینی مفادات، بلوچستان میں پنجابی کارکنوں اور بلوچوں کے حقوق کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں پر حملے کیے ہیں۔


دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ ملک دشمنوں سے اب کوئی بات نہیں ہوگی، دہشت گردوں کو ختم کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔


انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد پاکستان اور چین میں فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں، دہشت گردوں کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے، اس سلسلے میں پاکستان کی فوج کے سربراہ سے بات ہوئی ہے اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل مہیا کیے جائیں گے۔


انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گرد پاکستان میں خلفشار پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس کی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں رخنہ ڈالا جائے۔


’حکومت کو چاہیے کہ بلوچ عوام اور عسکریت پسندوں کے درمیان فرق کریں۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں‘


ماضی کی اگر بات کریں تو حکومت نے کئی بار عسکریت پسند گروہوں سے مذاکرات کرنے کی کوشش لیکن ہر بار ناکامی ہوئی۔


اس حوالے سے جب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز کے ریسرچر صفدر حسین نے کہا کہ ’اصل میں مسئلہ پاکستانی عوام کا ریاست پر عدم اعتماد ہے جو دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ بلوچ عوام کا مرکزی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ کمزور تعلق، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات اور جب صوبوں کے آپس میں معاملات خراب ہونے لگ جائیں تو عسکریت پسند بالخصوص بلوچ عسکریت پسند اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘


صفدر حسین نے کہا کہ ’میرے خیال میں حکومت کو پہلی کوشش یہ کرنی چاہیے کہ عسکریت پسندوں کو جہاں سے تھوڑی بہت سپورٹ مل رہی ہے اسے ختم کیا جائے لیکن اس کے لیے حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر حکومت ایسا نہیں کرپاتی تو یہ ملٹری آپریشن چلتے رہیں گے اور یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘


انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب عزم استحکام کی باتیں شروع ہوئیں تو بلوچستان میں اتنے احتجاج نہیں ہوئے جتنے خیبر بختونخوا میں ہوئے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے بلوچستان میں احتجاج ہوئے تو حکومت کو ان سے مذاکرات کرنے چاہیے تھے۔ کیونکہ وہاں کے لوگ پاکستانی حکومت کو نہیں مانتی۔ حال تو یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں بلوچ نمائندوں کے بھی عوام کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں‘۔


وہ کہتے ہیں کہ ’اس کا صرف ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ بلوچ عوام اور عسکریت پسندوں کے درمیان فرق کریں۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں۔ لوگوں کا اعتماد جیتیں گے تبھی عسکریت پسندوں کو ختم کرپائیں گے‘


’مسئلہ یہ ہے کہ جب عوام ریاست پر اعتماد نہیں کرتی تو عسکریت پسندوں کو بھی عوام کے اندر سے سپورٹ ملنا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ صوبے میں واپس آتے ہیں تو ان کے خلاف احتجاج نہیں ہوتا ، اس کا موازنہ آپ خیبرپختونخوا سے کرلیں۔ وہاں ٹی ٹی پی نے واپس آنے کی کوشش کی تو لوگ فوراً باہر نکلے اور ان کے خلاف احتجاج کیا لیکن ایسی صورتحال بلوچستان میں نہیں ہے۔


بنیادی طور پر بلوچ عوام سیاسی نمائندگی چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں تیسرے درجے کا شہری نہ سمجھا جائے، ان کے لوگوں کو نہ ’اٹھایا‘ جائے، وہ مالی خودمختاری چاہتے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جس کا فائدہ عسکریت پسند اٹھاتے ہیں۔‘


انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ اس مسائل پر عسکریت پسندوں کے بجائے بلوچ عوام اور ان کے نمائندوں کے ساتھ ڈائیلاگ کرے۔ ان سے بات کرکے ان کے تحفظات حل کریں ان چیزوں کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بنیادی فرق ہمیں سمجھنا چاہیے۔‘



#بلوچستان
#دہشتگردی
#پاکستان
#بلوچ لبریشن آرمی

دن کی اہم ترین خبریں بذریعہ ای میل حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے، آپ البائیراک میڈیا گروپ کی سائٹس سے الیکٹرانک مواصلات کی اجازت دیتے ہیں اور استعمال کی شرائط اور رازداری کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔