ایڈیٹنگ:

’یہ نسل کشی ہے‘، غزہ کے اسکول پر اسرائیلی حملے میں 100 سے زائد افراد ہلاک

11:0511/08/2024, Pazar
جی: 11/08/2024, Pazar
ویب ڈیسک
لوگ اسرائیلی حملے کے بعد  بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے والے اسکول کے اندر ہونے والے نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں۔
لوگ اسرائیلی حملے کے بعد بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے والے اسکول کے اندر ہونے والے نقصان کا جائزہ لے رہے ہیں۔

غزہ کے ایک اسکول، جہاں بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے، پر اسرائیلی حملے میں 100 سے زائد لوگ ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔


غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے ہفتے کے روز ہونے والے اسرائیلی حملے کے بارے میں کہا کہ ضلع دراج میں واقع التابین اسکول کو 3 اسرائیلی بموں سے نشانہ بنایا گیا۔


بیان میں اس اسرائیلی حملے کو ’خوفناک نسل کشی‘ قرار دیا۔


مرنے والوں میں خواتین، بچے اور بوڑھے افراد بھی شامل ہیں اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ حملہ اس وقت ہوا جب لوگ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے اور اس دوران آگ لگ گئی جس نے عمارت کو لپیٹ میں لے لیا۔


غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے سربراہ اسماعیل الثوبتہ نے قطری نشریاتی ادارے کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے اپنے حملے میں 2000 پاؤنڈ (907 کلوگرام) وزنی تین بم استعمال کیے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو اسکول کے اندر بے گھر لوگوں کی موجودگی کا علم تھا۔


اس حملے کے جواب میں ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کی فضائیہ نے ’کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر‘ پر حملہ کیا تھا جو ’حماس کے دہشت گردوں اور کمانڈروں کے ٹھکانے کے طور پر کام کرتا تھا‘۔


شواہد فراہم کیے بغیر اسرائیلی فوج نے ایک الگ بیان میں کہا کہ اس کے پاس انٹیلی جنس معلومات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حماس اور اسلامی جہاد کے 20 جنگجو، جن میں سینئر کمانڈر بھی شامل ہیں، اسکول کے اندر سے آپریٹ کر رہے تھے۔


بیان مین مزید کہا کہ ’فلسطینی حکام کی جانب سے لوگوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار غلط ہیں‘۔یہ پہلی بار نہیں کہ اسرائیل نےغزہ میں پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہونے والے اسکول پر حملہ کیا ہوا،ا س سے پہلے بھی کئی بار ایسے حملے ہوچکے ہیں اور اسرائیلی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حماس کے جنگجووٴں پر حملہ کررہے ہیں۔


اسکول پر ہونے والا حالیہ حملہ ایک ہفتے میں اس نوعیت کا چوتھا واقعہ تھا۔ حماس نے اسرائیلی الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ اسکولوں اور اسپتالوں جیسے مقامات سے آپریٹ کرتے ہیں۔


قطر اور مصر (جو جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی قیادت کرنے والے دو اہم ثالث ہیں) نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔


فلسطینی صحافی حسام شباط نے بتایا کہ امدادی ٹیمیں آگ میں پھنسے لوگوں کی مدد کرنے نہ کرسکی کیونکہ اسرائیلی فوج نے علاقے میں پانی کی سپلائی بند کردی ہے۔


جن زخمی لوگوں کو اسپتال پہنچایا گیا ان کی حالت تشویشناک تھی، زخمی میں کچھ لوگوں کا خون بہہ رہا تھا یا بمباری سے لگنے والی آگ سے شدید جھلس گئے تھے‘۔


انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال میں طبی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔’لاشیں اتنی جھلس گئی ہیں کہ ان کی شناخت کرنا مشکل ہے۔


سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے بتایا کہ ’اسکول میں ہر طرف لاشیں اور جسم کے اعضا بکھرے ہوئے ہیں۔ لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ہیں، پیرامیڈیکس کے لیے ایک پوری لاش کی شناخت کرنا بہت مشکل ہے‘۔


یہ بمباری ایسے وقت ہوئی ہے جب قطر، مصر اور امریکا نے اسرائیل اور حماس سے جنگ بندی کے لیے 15 اگست کو دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


الجزیرہ کے ایک صحافی کہتے ہیں کہ ’جب بھی مذاکرات جنگ بندی کے قریب پہنچتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح بڑے پیمانے پر اسرائیلی حملے ہوتے ہیں جو ان بات چیت کو مکمل طور پر ناکام بنا دیتے ہیں‘۔




#Palestine
#Israel-Gaza war
#Gaza
#Middle East

دن کی اہم ترین خبریں بذریعہ ای میل حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے، آپ البائیراک میڈیا گروپ کی سائٹس سے الیکٹرانک مواصلات کی اجازت دیتے ہیں اور استعمال کی شرائط اور رازداری کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔