|

مشرقی وسطیٰ میں کشیدگی: کیا اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے غزہ سیز فائر مذاکرات پر اثر پڑے گا؟

08:50 - 1/08/2024 جمعرات
اپ ڈیٹ: 12:03 - 1/08/2024 جمعرات
حماس نے اس حملے کا ذمہ داری اسرائیل کو ٹھہرایا ہے لیکن اسرائیل نے اب تک نہ اس تردید کی ہے اور نہ تصدیق۔
حماس نے اس حملے کا ذمہ داری اسرائیل کو ٹھہرایا ہے لیکن اسرائیل نے اب تک نہ اس تردید کی ہے اور نہ تصدیق۔

فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے پولیوٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران میں قتل کردیے گئے۔ وہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران کے شہر تہران میں موجود تھے۔


خبر رساں اداروں میں بتایا جارہا ہے کہ وہ 31 جولائی کو مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے ایک فضائی حملے میں ہلاک ہوئے۔ حماس نے اس حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے لیکن اسرائیل نے واقعے کو ایک روز گزر جانے کے باوجود اب تک نہ اس تردید کی ہے اور نہ تصدیق کی ہے۔


ایک فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے لیڈر ایران میں کیا کررہے تھے؟


اصل میں حماس axis of resistance نامی گروپ حصہ ہے، اس میں کئی گروپس ہیں جو اسرائیل اور امریکا کے خلاف لڑائی کررہے ہیں اور ایران خطے میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انہیں سپورٹ کرتا ہے۔


اس گروپ میں عراق اور شام میں ملیشیا، لبنان میں حزب اللہ، غزہ میں حماس اور یمن میں حوثی گروپ شامل ہیں۔


کیا اسماعیل ہنیہ کے قتل سے حماس کمزور ہوجائے گی؟


ویسے تو دیکھا جائے ماضی میں حماس کے کئی اہم لیڈرز قتل کیے جاچکے ہیں۔ جنوری 1996 میں اسرائیل نے غزہ میں حماس کے فوجی رہنما یحییٰ عیاش کو نشانہ بنایا۔


مارچ 2004 میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین غزہ میں اسرائیلی حملے میں ہلاک ہوئے جب کہ ایک ماہ بعد اپریل 2004 میں شیخ یاسین کے جانشین عبدالعزیزالرنتیسی بھی غزہ میں اسرائیلی میزائل حملے میں مارے گئے۔ اس کے باوجود حماس گروپ اپنے مطابق کام کرتا رہا۔


حال ہی میں جنوری 2024 میں حماس کے سینئر اہلکار صالح العروری بیروت میں اسرائیلی ڈرون حملے نشانہ بنایا گیا۔


اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ میں جنگ کررہا ہے۔ اسی دوران وہ غزہ کے علاوہ شام، لبنان اور ایران کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے مڈل ایسٹ میں بے امنی بھی پھیلا رہا ہے۔ کئی اخبارات نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ ہنیہ کی ہلاکت سے غزہ سیز فائز اور امن کی کوششوں کے مذاکرات پر بہت پڑا ہے۔


یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے واقعے نے غزہ میں فی الحال جنگ بندی کا امکان ختم کر دیا ہے۔


گزشتہ چند مہینوں کے دوران حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی بات چیت ہوئی تھی جس کا مقصد غزہ میں عام شہریوں کے قتل عام کو روکنا اور ہزاروں فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔


لیکن بعض ناقدین اور ماہرین کے مطابق جنگ بندی مذاکرات کمزور کرنے کے پیچھے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے فیصلے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو اس خوف سے جنگ ختم نہیں کرنا چاہتے کہ اِس سے ان کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت گر سکتی ہے اور ملک میں قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں۔


لیکن بین الاقوامی کرائسس گروپ کے ایکسپرٹ مایراو زونزین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو ہنیہ کے قتل کو اسرائیل کے لیے ’فتح‘ قرار دینے کی کوشش کر سکتے ہیں، جس سے غزہ جنگ بندی کو سیاسی طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ کچھ اسرائیلی سیاستدان ہنیہ کے قتل کا جواز بنا کر کہہ سکتے ہیں کہ اس سے وہ غزہ جنگ بندی کے قریب آچکے ہیں۔


کیا امریکا جنگ ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا؟


اس تمام صورتحال میں امریکا کا بھی اہم کردار ہے۔ امریکہ اب بھی اسرائیل پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے، لیکن کیونکہ وہاں نئے صدر کے لیے الیکشن کا موسم ہے تو ابھی ایسا ممکن نہیں ہے۔


چاہے اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر کا معاملہ ہو، دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر اسرائیل کا حملہ یا اسرائیل کے قبضے والے علاقے گولائن ہائٹس کے فٹبال اسٹیڈیم میں میزائیل حملہ جس کا ذمہ دار حزب اللہ کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ اس سب میں امریکا ہر بار اسرائیل کو سپورٹ کرتا آیا ہے۔


اس کے باوجود امریکا ہر بار یہی کہتا آیا ہے کہ وہ خطے میں کشیدگی نہیں چاہتا لیکن دوسری جانب اس نے غزہ جنگ میں اسرائیل کو ہتھیار دیے اور مشرقی وسطیٰ میں اپنی فوج بھیجی۔


مشرقی وسطیٰ کشیدگی کا حل کیا ہوسکتا ہے ؟


ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی اور اسرائیل کا وہاں سے مکمل انخلا ہی مشرقی وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو کم کرسکتا ہے کیونکہ شام، لبنان، عراق اور ایران میں بڑھتی کشیدگی غزہ سے جڑی ہوئی ہے۔


#Israel-Gaza war
#Hamas
#Palestine
#Middle East
1 مہینہ واپس