|

عزم استحکام ملٹری آپریشن نہیں، ایک سیاسی مافیا اسے متنازع بنانا چاہتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

13:10 - 22/07/2024 понедельник
اپ ڈیٹ: 16:54 - 22/07/2024 понедельник
ویب ڈیسک
ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کررہے ہیں
ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کررہے ہیں

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ عزم استحکام ملٹری آپریشن نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی مافیا اسے متنازع بنانا چاہتا ہے۔


ڈی جی آئی ایس پی آر نے راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پریس کانفرنس کا مقصد کچھ اہم موضوعات پر فوج کے موٴقف کو واضح کرنا ہے، حالیہ دنوں میں مسلح افواج کے خلاف منظم پروپیگنڈے، جھوٹی، غلط خبروں اور من گھڑت خبروں میں اضافہ ہوا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان معاملات پر بات کی جائے۔ ‘


’اس سال اب تک سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف 22 ہزار 409 انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیے ہیں۔‘


انہوں نے کہا کہ ’ان آپریشنز میں 398 دہشت گرد، 31 انتہائی مطلوب دہشت گرد اور 137 افسران اور اہلکار ہلاک ہوئے۔ ‘ ’فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف روزانہ 112 سے زائد آپریشن کیے جا رہے ہیں۔‘


حکومت کے نئے آپریشن عزم استحکام کے نتیجے میں نقل مکانی کے امکان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’عزم استحکام دہشت گردی کے خلاف ایک مربوط مہم ہے اور یہ ملٹری آپریشن نہیں ہے جیسا کہ اسے پیش کیا جارہا ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارا مسئلہ ہے کہ ایک سنجیدہ بات کو سیاست کی بھینت چڑھا دیا جاتا ہے، عزم استحکام اس کی ایک مثال ہے‘۔


ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’عزم استحکام سے متعلق بائیس مئی کو وزیراعظم کی صدارت ایپکیس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری ہوا جس کے بعد ایک کنفیوژن پیدا ہوگئی۔ ‘


ان کا کہنا تھا کہ ’ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان میں پیشرفت کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس ضرورت کا اظہار کیا کہ ملک میں جامع انسداد دہشتگردی کی مہم کی ضرورت ہے۔‘


انہوں نے اسی اعلامیے کے حوالے سے کہا کہ ملک میں انسداد دہشت گردی مہم کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی اور قانون سازی کی جائے گی۔


ترجمان نے کہا کہ اعلامیہ جاری ہونے کے بعد ایک بیانیہ بنایا گیا کہ لوگوں کو بے گھر کیا جارہا ہے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس بیانیے کے دو دن بعد پرائم منسٹر آفس کی جانب سے دوسرا اعلامیہ جاری ہوتا ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ہماری بقا کا معاملہ ہے، ہم سنجیدہ معاملے کو بھی سیاست کی وجہ سے مذاق بنا دیتے ہیں۔‘


ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ ’عزم استحکام پر بحث، کنفیوژن اور متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے؟ کیونکہ ایک مضبوط لابی چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کے مقاصد پورے نہ ہوں۔‘


’کیوں ایک بہت بڑا مافیا، سیاسی مافیا، غیر قانونی مافیا ہر جگہ سے کھڑا ہوگیا کہ ہم نے یہ کام نہیں ہونے دینا۔ ان کی پہلی چال ہے کہ وہ اسے جھوٹ کی بنیاد پر متنازع بنا دیں۔‘


آرلیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ ’ہم ہر گھنٹے میں چار سے پانچ انٹیلیجنس کی بنیاد پر دہشت گرد کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر آپریشن عزم استحکام کو درست طریقے سے نافذ کیا گیا تو یہ نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ کرے گا بلکہ سماجی اور قومی ترقی کا باعث بھی بنے گا۔


انہوں نے کہا کہ ملک کے 22 ہزار مدارس میں سے صرف 16 ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، تقریباً پچاس فیصد مداراس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ کون چلا رہا ہے، کیا یہ بھی فوج کا کام ہے؟ ملک میں لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بھی موجود ہیں، دہشت بھی یہی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔


’عزم استحکام میں جب یہ کہا گیا کہ اس آپریشن میں دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنا ہے تو وہ مافیا اتنی پریشان ہوگئی کہ اسے متنازع بنا دیا۔‘



’بنوں میں فوج نے ایس او پیز کے مطابق درست رسپانس دیا‘


بنوں میں امن مارچ کے دوران ہونے والے تشدد اور مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف کہا کہ 15 جولائی کو بنوں میں ہمارے 8 جوان شہید ہوئے اور ہمارے جوانوں نے حملہ کرنے والے تمام دہشتگردوں کو ہلاک کردیا۔


اگلے دن بنوں کے تاجروں نے کہا کہ ہم نے امن مارچ کرنا ہے اور جب یہ مارچ ہوا تو کچھ مخصوص منفی عوامل شامل ہوگئے اور جب وہ بلاسٹ ہونے والی روڈ سے گزرے تو انہوں نے ریاست مخالف نعرے لگائے، پتھراؤ کیا۔


ان کا کہنا تھا ’جس طرح کہا جارہا ہے کہ نہتے لوگوں پر فائرنگ ہوئی تو کیا وہ لوگ آٹا، گھی چوری کر رہے ہوتے اور اس مارچ میں مسلح لوگ شامل ہوگئے اور وہاں بھی جانی نقصان ہوا، فوج نے ایس او پی کے تحت ہی کارروائی کی ہے۔‘


انہوں نے کہا کہ ’جب 9 مئی کا واقعہ ہوا تو ایک مخصوص گروہ، ایک انتشاری ٹولے نے یہ بات کی کہ فوج نے ان کو روکا کیوں نہیں، ان کو گولی مار دیتے، کیونکہ انہوں نے ان کو گولی نہیں ماری اس کا مطلب یہ خود ان کو لے کر آئے، یہ بیانیہ ہر طرف چلایا گیا۔


ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کا سسٹم بہت واضح ہے اور اس کے مطابق کام ہوتا ہے، اگر کوئی انتشاری ٹولہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے آتا ہے تو اس کو پہلے وارننگ دی جاتی ہے، پھر ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے، اگر وہ انتشاری ٹولہ نہ رکے تو پھر اس کے ساتھ جو کرنا ہو وہ کیا جاتا ہے۔


ٹی ایل پی دھرنے پر فوج کا موٴقف


تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان علاقے فیض آباد پر تین روزہ دھرنا سے متعلق پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’اس کا بنیادی مسئلہ فلسطین کا ہے۔ یہ ایک بہت اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ فلسطین کے معاملے پر ریاست اور فوج کا واضح موقف ہے کہ یہ ایک نسل کشی ہے اور ناقابل قبول ہے۔


انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فلسطین کے لیے 1100 ٹن سے زائد امداد بھیجی ہے۔


ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف نے کہا کہ ’حکومت اور ادارے فلسطین کے معاملے پر حساسیت اور جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے ٹی ایل پی سے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کررہے تھے تاکہ وہ بغیر تشدد کے کسی طریقے سے مزاکرات کے ذریعے مسئلہ حل ہوجائے‘۔


ترجمان نے کہا کہ ’اسی دوران جعلی خبریں اور پروپیگنڈہ شروع ہوا کہ انہیں (ٹی ایل پی) کو ادارے نے خود لا کر بٹھایا ہے۔‘


انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا ہر دوسرے احتجاج کے لیے فوج کو الزام ٹھہرایا جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے جعلی خبریں اور پروپیگنڈہ بہت عام ہو گیا ہے اور اس کا کوئی جوابدہ نہیں ہے۔


ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ کیا ٹی ایل پی کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے کوئی طاقت کا استعمال ہوتا، لاٹھی چارج ہوتا تو کیا سب کو یقین ہوتا کہ اس کے پیچھے فوج نہیں تھی؟ انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایسی منفی سوچ میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ہم ہر طرح کی سازشی تھیوری لے کر آتے ہیں۔‘



ڈیجیٹل دہشت گردی


سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف تنقید اور بیانیہ کے بارے میں سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ڈیجیٹل دہشت گردی ہے۔


انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشت گرد سیل فون، کمپیوٹر، جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے معاشرے پر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ ’ڈیجیٹل دہشت گرد کے بارے میں بہت کم معلومات ہوتی ہیں، کبھی کبھار ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ وہ کون ہے، حقیقی دہشت گرد اور ڈیجیٹل دہشت گرد میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں کا ہدف فوج ہے۔ ‘


’ ڈیجیٹل دہشت گرد کو قانون اور سزائیں ہی روک سکتی ہیں۔ تواتر سے فوج اور دیگر اداروں کی قیادت کے خلاف بے ہودہ بات چیت کی جاتی ہے، فیک نیوز پھیلائی جاتی ہے۔ ‘


ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ریاستی قیادت اور اداروں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ بجائے اس کے ان افراد کے خلاف عدالتیں کارروائی کرتیں، ان افراد کو آزادی اظہار کے نام پر ہیرو بنایا جاتا ہے۔






#DG ISPR
#Pak Army
#Pakistan
#Operation Azm-i-Istehkam
#Intelligence operation
2 месяцев назад