بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے ملک گیر بدامنی کے بعد ملازمتوں کے ایک متنازعہ کوٹہ سسٹم کو واپس لے لیا ہے جس کے دوران 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بنگلادیش کی سپریم کورٹ نے سرکاری نوکریوں کے متنازع کوٹہ سسٹم سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ واپس لے لیا۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے طلبہ یکم جولائی سے سرکاری نوکریوں میں 1971 میں پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کے اہل خانہ کے لیے مختص 30 فیصد کوٹے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں اب تک سو سے زائد لوگ ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔
جب کہ بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے ملک میں تعلیمی ادارے اور انٹرنیٹ و موبائل سروس بھی بند کردی گئی تھی۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ کوٹہ حکمران جماعت عوامی لیگ پارٹی کے اتحادیوں کو فائدہ دے گا۔
یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے تھے جب جون میں ہائی کورٹ نے 2018 کے حکم نامے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کوٹہ سسٹم دوبارہ بحال کردیا تھا۔ جس کے بعد حکومت نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ کی سماعت سات اگست کو ہونا تھی لیکن پرتشدد مظاہروں کے بعد عدالت نے قبل از وقت فیصلہ سناتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ واپس لے لیا۔
سپریم کورٹ 1971 کی جنگ میں لڑنے والوں کے اہل خانہ کے لیے 5 فیصد کوٹہ مختص کرنے کا حکم دیا جبکہ 93 فیصد نوکریاں میرٹ پر دی جائیں گی، اس کے علاوہ باقی دو فیصد کوٹہ اقلیتوں اور ٹرانس جینڈرز اور معذور افراد کے لیے مختص کیا جائے گا۔
ملک میں کرفیو نافذ
سپریم کورٹ کے اعلان سے قبل بنگلادیش میں مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے تھے، جس کے بعد حکومت نے اس احتجاج کو حکومت مخالف قرار دیتے ہوئے مظاہرین کو ’رضاکار‘ کہا تھا۔
یاد رہے کہ بنگلا دیش میں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان فوج کا ساتھ دیا۔
یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے احتجاج کو روکنے کے لیے ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا تھا، فوج کو سڑکوں پر بلا لیا اور فوج کو حکم دیا کہ جو کوئی بھی کرفیو کی خلاف ورزی کرے اسے گولی مار دی جائے۔
پرتشدد مظاہروں میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں بھی برسائی تھیں۔
شیخ حسینہ نے کوٹہ سسٹم کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنگلادیش کے وہ افراد جنہوں نے 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ لڑی وہ اس کوٹہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔