|

کیا انڈیا کشمیر میں بھی وہی کرنا چاہتا ہے جو اسرائیل غزہ میں کررہا ہے؟

01:40 - 14/06/2024 جمعہ
اپ ڈیٹ: 13:25 - 11/07/2024 جمعرات
ویب ڈیسک
 بھارت اور اسرائیل کے درمیان نہ صرف قریبی فوجی تعلقات ہیں بلکہ دونوں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ایک جیسے طریقے ہی استعمال کرتے ہیں
بھارت اور اسرائیل کے درمیان نہ صرف قریبی فوجی تعلقات ہیں بلکہ دونوں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ایک جیسے طریقے ہی استعمال کرتے ہیں

جہاں ایک طرف غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ مشرقی وسطیٰ کی موجودہ تاریخ کا سب سے تباہ کن دور ہے، وہیں اس تنازع کے علاوہ جنوبی ایشیا میں مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، کئی ماہرین یہ خبردار کرچکے ہیں کہ کشمیر تنازع کو اگر حل نہ کیا گیا تو لوگ جلد وہاں پر بھی غزہ جیسی صورتحال دیکھیں گے۔


اس کی ایک مثال بھارت کے سیاسی کمنٹیٹر آنند رنگناتھن کے ایک متنازع بیان کی ہے جب انہوں نے ایک پوڈکاسٹ کے دوران کشمیر کے لیے ’اسرائیل ماڈل‘ تجویز کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نے اپنے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے سب کچھ کیا، لیکن بھارت نے کشمیر میں ہندوؤں کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ‘


انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے باوجود اسرائیلیوں اور ہندوؤں سے نفرت کرنے والے لوگوں کے نظریے کی وجہ سے کبھی کوئی حل نہیں نکل سکتا۔‘


پوڈکاسٹ کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو سوشل میڈیا صارفین نے اس کمنٹیٹر کے مقبوضہ کشمیر میں بھی غزہ جیسی ’نسل کشی‘ کرنے کے ارادے پر شدید تنقید کی۔


بعد میں آنند نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پراپنے بیان کی وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ وہ کشمیر میں غزہ جیسی ’نسل کشی‘ کا نہیں کہہ رہے تھے بلکہ وہ سرحدوں کو محفوظ بنا کر اور دہشت گردی سے لڑ کر ایک اور نسل کشی کو روکنا چاہتے ہیں۔


یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی بھارتی سیاستدان یا کسی صحافی نے کشمیر میں اسرائیلی ماڈل کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہو یا اس سے متعلق متنازع بیان دیا ہو۔


نومبر 2019 میں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے چند مہینے بعد نیویارک شہر میں بھارتی قونصل جنرل سندیپ چکرورتی نے کہا تھا کہ نریندر مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل طرز کا ماڈل اپنائے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل فلسطینی علاقوں میں اپنے لوگوں کو آباد کرسکتا ہے تو ہم بھی اسی طرح کشمیر میں ہندوؤں کو بسا سکتے ہیں۔


آنند رنگناتھن کے ریمارکس پر بھارت کے کئی لبرل مبصرین نے ان پر تنقید کی اور کئی لوگوں نے کشمیر اور فلسطین کے حالات کے درمیان فرق کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔


بھارتی اخبار کے ایڈیٹر نے ایکس پر لکھا کہ ’جو لوگ کشمیر کا فلسطین سے موازنہ کررہے ہیں وہ دراصل انتہائی دائیں بازو اور مذہبی انتہا پسند ہیں جو کشمیر تنازع اور مسئلہ فلسطین کو نہیں سمجھ سکتے۔‘


تاہم امریکی یونیورسٹی لافائیٹ کالج میں ساوتھ ایشین ہسٹری کی ایسوسی ایٹ پروفیسر حفصہ کنجروال نے کہا ہے کہ کشمیر میں اسرائیل کا ماڈل پہلے ہی لاگو ہوچکا ہے، بھارت اور اسرائیل کے درمیان نہ صرف قریبی فوجی تعلقات ہیں اور دونوں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ایک جیسے طریقے ہی استعمال کرتے ہیں بلکہ دونوں کے صیہونیت اور ہندوتوا نظریے بھی ایک جیسے ہیں۔


انہوں نے مڈل ایسٹ صورتحال پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ
میں ایک پبلش ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا کہ اسرائیلی ماڈل کا مقصد آزادی کی تحریک کو دبانا اور لوگوں کو اپنے علاقوں سے بے گھر کرنا ہے، زمین پر قبضہ اور تاریخ مٹانے کی کوشش ہے۔

حفصہ کنجروال نے کہا کہ اسرائیل اور بھارت اپنے آپ کو لبرل، جمہوری اور سیکولر کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ لوگوں کی تحریکوں پر ’دہشت گردی‘ کا لیبل لگاتے ہیں اور متاثرین کو حملہ آور کے طور پر پیش کرتے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اسرائیلی ماڈل 2019 سے نافذ نہیں ہوا جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی بلکہ انڈین نیشنل کانگریس (جسے بھارت میں ایک سیکولر پارٹی سمجھا جاتا ہے) نے 1947 کے بعد جب زبردستی کشمیر مسلمانوں کا اکثریتی کردار ختم کرنے کی کوشش کی تھی، تب سے کشمیر میں اسرائیلی ماڈل نافذ ہے۔


مڈل ایسٹ کی رپورٹ میں حفصہ کنجروال نے اپنی ریسرچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کئی دہائیوں سے بھارتی حکومت نے کشمیر میں ترقیاتی منصوبوں اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے اقدامات جیسی حکمت عملیوں کا استعمال کیا ہے جیسے اسرائیلی حکومت 1947 کی جنگ کے بعد غزہ میں کررہی ہے۔


’تاہم 1980 کی دہائی کے آخر میں جب لوگوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے مزاحمت کی تو بھارتی حکومت نے اسرائیل کے طریقوں کی طرح انقلابی حربے استعمال کرنا شروع کر دیے۔‘


’جس میں قتل عام، جنسی تشدد، لوگوں کو حراست میں لینا اور گھروں کو مسمار کرنا شامل ہے، بھارتی فوج نے عوامی تحریکوں کو دبانے کے لیے کے لیے اسرائیلی فوج سے تربیت حاصل کی ہے۔‘


مڈل ایسٹ آئی
کی رپورٹ میں حفصہ کنجروال نے کہا کہ ’کشمیری مسلمان اس بات سے واقف ہیں کہ نسل کشی کے بیانات، جس کا وہ اکثر سامنا کرتے ہیں، حقیقت بن سکتے ہیں، غزہ میں اسرائیلی ماڈل جیسے اقدامات پورے انڈیا میں موجود مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔







#Kashmir
#Gaza
#India
#Palestine
#Israel
#Middle east
#Genocide
3 ماہ واپس